کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 14
شریعت میں ’’حمد‘‘ ایک ایسا فعل ہے جو منعم کی تعظیم کا مظہر ہے ،اس لیئے کہ وہ حقیقتاً انعام واحسان کرنے والا ہے ، ’’حمد‘‘ الذم(مذمت) کی ضد ہے ۔
’’ ا لذی أرسل رسولہ ‘‘ یعنی تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جس نے اپنا رسول مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی حمد وثناء کا مستحق ہے کہ اس نے اتنی نعمتیں عطا فرمائیں جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ ان نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔
’’رسول‘‘ کا لغوی معنی وہ شخص ہے جسے کوئی پیغام دیکر بھیجا جائے ۔ شریعت کی اصطلاح میں رسول ایک ایسا انسان ،مردِکامل، جس کی طرف شریعت کی وحی بھیجی جائے ،اور اس وحی کی تبلیغ پر اسے مأمور کیا جائے ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔
ہدایت : علم ِنافع کا نام ہے اور اس سے مراد ہر وہ چیزجو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پروردگار کی طرف سے لیکر آئے …وہ سچی خبریں ،اوامر ،نواہی اور تمام نفع بخش امور ہیں ۔
ہدایت کی دوقسمیں ہیں:
(۱) راہ نمائی کرنا ،بڑی وضاحت سے راستہ بتادینا ۔
یہ قسم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے : { وَاَمَّا ثَمُوْد فَھَدَ یْنَا ھُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰی عَلَی الْھُدٰیٰ } (فصلت:۱۷)
ترجمہ:’’ رہے ثمود ،سو ہم نے ان کی بھی راہنمائی کی پھر بھی انہوں نے ہدایت پراندھے پن کو ترجیح دی‘‘
اس معنی میں ہدایت کرنا وظیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{ وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ }