کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 134
’’استیلاء‘‘ قہر (غلبہ پانا) سے تأویل کرتے ہیں ،جو ’’عرش‘‘ بمعنی ’’ مُلک ‘‘لیتے ہیں، اور پھر جملہ’’ استویٰ علی العرش ‘‘کا معنی یوں بیان کرتے ہیں کہ اس نے ا پنے ملک پر قہر وغلبہ پالیا۔
یہ معنی کئی وجوہ سے باطل ہے:
(۱) یہ تفسیر بدعت ہے اور سلف صالحین صحابہ کرام، تابعین اور اتباع تابعین کی تفسیر کے خلاف ہے۔ یہ معنی سب سے پہلے ،جہمیہ اور معتزلہ نے کیا جو مردود اور باطل ہے۔
(۲) اگر’’استواء علی العرش ‘‘کا معنی ملک پر غلبہ حاصل کرنا ہے تو پھر عرش پر مستوی ہونے یا ساتویں زمین ہو یا کوئی اور جملہ مخلوقات پر مستوی ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ اللہ رب العزت تمام مخلوقات کا مالک ہے اور تمام مخلوقات پر غالب ہے، تو پھر صرف عرش پر غلبہ پانے کو بیان کرنے کا کیا فائدہ؟
(۳) قرآن وحدیث کے تمام نصوص میں’’استویٰ علی العرش‘‘ ہی مذکور ہے ،کسی ایک مقام پر تو ’’استولیٰ علی العرش ‘‘ہوتا ،کہ بقیہ نصوص کی اس کے ساتھ تفسیر کرلی جائے۔
(۴) اللہ تعالیٰ نے’’ ثم استویٰ علی العرش ‘‘فرمایا ،اور ثم ترتیب ومہلت کے معنی کا فائدہ دیتا ہے اگر استواء کا معنی عرش پر غلبہ اور قدرت پانا ہے تو اسے آسمان وزمین کی خلق سے متأخر کیوں کیا (یعنی کیا اللہ تعالیٰ کو آسمان وز مین کی خلق سے قبل عرش پر غلبہ اور قدرت حاصل نہیں تھی؟) جبکہ عرش تو آسمان وزمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل ہی موجود تھا ،تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آسمان وزمین کی خلق سے قبل عرش پر قدرت وغلبہ حاصل نہیں تھا ،بعد میں حاصل ہوا، یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر سب سے بڑا بہتان ہے ۔ (واللہ اعلم)