کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 13
الحمد اللّٰه الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ وکفی باللّٰه شھیدا ۔وأشھدأن لاالہ الا اللّٰه وحدہ لاشریک لہ اقرارا بہ وتوحیدا ۔ وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ صلی اللّٰه علیہ وعلیٰ آلہ وسلم تسلیما مزیدا ۔
عبارت کی تشریح
… شر ح …
مؤلف رحمہ اللہ نے اپنے اس عظیم الشان رسالہ کا آغاز اس خطبہ سے فرمایا ہے ،جو کہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء ،شھادتین (یعنی توحید ورسالت کی گواہی) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر درود وسلام پر مشتمل ہے ۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء مقصود ہے ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہم گفتگواور خطبے حمد وثناء ،درود و سلام اور شھادتین سے شروع ہوتے تھے ۔نیز اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر بھی عمل مقصود ہے :
[کل أ مر ذی با ل لایبدأ فیہ بحمد ا للّٰه فھو اقطع ] ( ابوداؤد)
ترجمہ:[اہمیت والا کوئی بھی کام اگر الحمد للہ سے شروع نہ کیا جائے تو وہ برکت سے خالی ہوگا]
ایک روایت میں ’’ا لحمد ﷲ‘‘ کی جگہ ’’بسم اللّٰه ا لرحمن ا لرحیم ‘ ‘کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ ان دونوں روایتوں میں جمع کی صورت یہ ہے کہ بسم اللّٰه الرحمن الرحیم سے شروع کرنا ابتداءِ حقیقی ہے ، جبکہ الحمد اللّٰه سے آغاز ابتداءِ نسبی اور اضافی ہے۔
’’ الحمد ﷲ‘‘ میں الف لام استغراقی ہے ۔ جس کامعنی یہ ہے کہ تمام تعریفوں کا صرف اللہ تعالیٰ ہی مالک اور مستحق ہے ۔
’’حمد ‘‘ کا لغوی معنی ایسی ثناء جو صفاتِ جمیلہ اور افعالِ حسنہ کیساتھ کی جائے ۔عرفِ