کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 128
تعدد وانقسام نظر نہیں آتا۔’’وَلَعَلَا بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘‘ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور آلِھۃ ہوتے توہر ایک دوسرے کی مخالفت کرتا اور اس پر غلبہ پانے کی کوشش کرتا ،نتیجۃ بعض ، بعض پر غالب آجاتا جس طرح کہ دنیا کے بادشاہوں کا معاملہ ہے ۔ ایسی صورت میں ا لٰہ ِمغلوب ضعیف ثابت ہوا اور ضعیف ،الٰہ ہونے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ لہذا جب شریک کا بطلان ثابت ہوگیا تو یہ بات متعین ہوگئی کہ الٰہ صرف ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے ، اس لئے اگلی آیت میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’سُبْحَانَ اللّٰه عَمَّا یَصِفُوْنَ‘‘ یعنی یہ لوگ شریک اور اولاد کی باتیں کرتے ہیں ،اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور منزہ ہے ۔’’ عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ ‘‘یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی مختص ہے ہر اس چیز کے علم کے ساتھ جو لوگوںسے پوشیدہ ہے اور جو لوگوں کے مشاہدہ میں ہے ، اللہ تعالیٰ کے علاوہ جو بھی مخلوق ہے وہ اگرچہ کچھ مشاہد(حاضر) چیزوں کا ادراک کرلیتی ہے مگر غیب کا علم کوئی نہیں جانتا۔’’فَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ پاک اور منزہ ہے اس شرک سے جو لوگ اس کے ساتھ کرتے ہیں ، یعنی اللہ تعالیٰ ا پنے ملک میں ہر شریک سے پاک اور منزہ ہے ۔ { فَلَا تَضْرِبُوا ِاللّٰه الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰه یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ } (النحل:۷۳) ترجمہ’’ پس اللہ تعالیٰ کیلئے مثالیں مت بناؤ ،اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘ … شر ح … ’’ فَلَا تَضْرِبُوا ِاللّٰه الْاَمْثَالَ ‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں مثالیں بیان کرنے سے منع فرمارہا ہے ۔مثال بیان کرنے سے مراد یہ ہے کہ کسی ایک حالت یا کیفیت کو دوسری حالت یا کیفیت کے مشابہ قرار دینا۔ مشرکین کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بلند ہے کہ ہم میں سے کوئی اس کی عبادت کرے ،ہمارے اور اس کے درمیان واسطہ ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ