کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 127
امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ اللہ تعالیٰ نے اولاد اور شریک سے اپنی تنزیہ اور پاکی بیان فرمائی ،اور پھر یہ بھی بتایا کہ ہر چیز کو پیدا کرکے اس کی تقدیر بھی مقرر کردی ہے ،گویا اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز مخلوق و مربوب ہے اور وہ ہر چیز کا خالق، مالک ،رب اور الٰہ ہے ،اور ہر چیز اس کے قہر ، تدبیر،تسخیر ،اور تقدیر کے تحت ہے ۔‘‘ { مَااتَّخَذَ اللّٰه مِنْ وَّلَدٍ وَمَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَ ھَبَ کُلُّ اِلٰہٍ بِمَاخَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ سُبْحَانَ اللّٰه عَمَّا یَصِفُوْنَ ۔ عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ فَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ } (المؤمنون ـ۹۱،۹۲) ترجمہ’’ نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے ،ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لیئے لیئے پھرتا ، اور ہر ایک دوسرے پر چڑ دوڑتا ،جو اوصاف یہ لوگ بتلاتے ہیں، ان سے اللہ پاک (اور بے نیاز ہے) ۔وہ غیب وحاضر کو جاننے والاہے اور جو شرک یہ کرتے ہیں اس سے بالاتر ہے ‘‘ … شر ح … ’’ مَااتَّخَذَ اللّٰه مِنْ وَّلَدٍ وَمَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ ‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اولاد ،ملک، تصرف اور عبادت میں کسی بھی قسم کے شریک کی اپنی ذات سے تنزیہ وپاکی فرمارہا ہے۔ اور کلمۂ ’’من‘‘ دونوں مقام پر نفی کی تاکید کیلئے ہے ۔’’اِذًا لَّذَ ھَبَ کُلُّ اِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ‘‘ آیت کے اول حصہ میں اللہ تعالیٰ سے اولاد اور شریک فی الالوہیۃ کی جو نفی ہوئی ہے اب اس کی دلیل بیان ہورہی ہے۔ یعنی اگر بالفرض تعددِ آلھۃ کو تسلیم کرلیا جائے ،تو ہر الٰہ اپنی اپنی مخلوق لیکر دوسرے سے الگ ہوچکا ہوتا ، اور اس تقسیم کی وجہ سے کائنات کا نظام کب سے درھم برھم ہوچکا ہوتا ۔ جبکہ حقیقت اور مشاہدہ یہ ہے کہ پوری کائنات ایک بہترین اور مکمل نظام کے ساتھ چل رہی ہے ، ہمیں کہیں بھی