کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 12
قال المصنف : بسم اللّٰه الرحمن الرحیم
بسم اللہ کی تشریح
… شر ح …
مصنف رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کو بسم اللّٰه الرحمن الرحیم سے شروع فرمایا ہے ، اس سے قرآنِ حکیم کی اقتداء مقصود ہے ،کیونکہبسم اللّٰه الرحمن الرحیم ، سورئہ توبہ کے علاوہ ہر سورت کے شروع میں وارد ہوئی ہے ۔نیز اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء بھی مقصود ہے ،کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطوط ومکاتیب کی ابتداء بسم اللّٰه الرحمن الرحیم سے فرمایا کرتے تھے۔
’’بسم اللّٰه ‘‘ کی باء استعانت کیلئے ہے ،جس کا معنی ہوگا : اللہ تعالیٰ کے نام کی مدد کے ساتھ آغاز کرتا ہو ۔
’’الاسم‘‘ کا لغوی معنی ایک ایسا لفظ جو کسی مسمیٰ پر دلالت کرے ،اصطلاحی معنی یہ ہے کہ ایک ایسا لفظ جو خود اپنا معنی دے اور وہ کسی زمانے کے ساتھ ملا ہوا نہ ہو۔
’’بسم اللّٰه ‘‘ میں جار مجرور ،فعلِ محذوف کے متعلق ہیں،بہتر ہے کہ وہ فعلِ محذوف اس کے بعد مقدر مانا جائے تاکہ حصرکا فائدہ دے ۔
’’اللّٰه ‘‘ اس ذاتِ مقدسہ کا علَم ہے جس کا معنی ہے : اپنی تمام مخلوق پر الوہیت وعبودیت والا
’’اللّٰه ‘‘ ألہ یألہ ألوہۃ سے مشتق ہے ،جو عبد یعبد عبا د ۃ کے معنی میں ہے… تو اللہ تعالیٰ الٰہ ہے جو مألوہ یعنی معبود ہے۔
’’ الرحمن الرحیم ‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے دو انتہائی مبارک ومعزز نام ہیں،جن کی دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صفتِ رحمت کیساتھ متصف ہے ،بالکل ویسے جیسے اس کی ذات اور جلال کے لائق ہے ۔
’’الرحمٰن‘‘ سے مراد ایسی رحمت والا جو تمام مخلوقات کیلئے عام ہے ۔اور ’’الرحیم ‘‘ سے مراد ایسی رحمت والا جو مؤمنین کے ساتھ خاص ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: { وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا } ترجمہ:’’ اور وہ مؤمنین پر رحم فرمانے والاہے ‘‘