کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 245
الفاکھانی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :
’’ حمد وثنا کے بعد : جماعت مبارکین کی طرف سے یہ سوال بار بار کیا گیا کہ ماہ ربیع الأول میں بعض لوگ میلاد کے نام سے ایک اجتماع منعقد کرتے ہیں، کیا اس کی دین میں کوئی اصل ہے، اور اس کا انہوں نے بالتفصیل جواب مانگا ہے، تو اس لئے کہ اس کی توضیح بھی مفید مقصد ہے، تو میں اﷲ سے توفیق طلب کرتا ہوا کہتا ہوں کہ :’’ میلاد کی کوئی اصل کتاب وسنت میں موجود نہیں ہے، نہ ہی اس پر عمل ان علمائے امت سے ثابت ہے، جو دین کے پیشوا، اور اسلاف کے آثار کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں، بلکہ وہ ایک ایسی بدعت ہے جسے بیکار اور کاہل لوگوں نے ایجاد کیا ہے، اور شہوات نفسانی کے ماروں اور پیٹ پالو لوگوں نے اسے مال غنیمت سمجھ رکھا ہے ۔‘‘
شیخ الإسلام امام إبن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ اور اسی طرح آج جو لوگ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عید میلاد مناتے ہیں، وہ یا تو ’’ میلاد مسیح ‘‘کے متعلق عیسائیوں کی مشابہت کرتے ہوئے، یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وتعظیم میں،مناتے ہیں، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے، علاوہ ازیں سلف صالح نے اسے نہیں کیا، اگر میلاد منانا بھلائی کا کام ہوتا، یا راجح ہوتا، تو اس کو کرنے کے ہم سے زیادہ سلف صالحین رضی اﷲ عنہم مستحق ہوتے، اس لئے کہ وہ ہم سے زیادہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وتعظیم کرنے والے، اور ہم سے زیادہ نیکیوں کے حریص تھے ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور تعظیم، آپ کی اتباع اور اطاعت، آپکے احکام کی پیروی، آپکی ظاہری اورباطنی سنتوں کو زندہ کرنے، اور آپکی تعلیمات کو پھیلانے، اور اس پر دل، ہاتھ اور زبان سے جہاد کرنے میں ہے ۔ اور یہی طریقہ مہاجر اور انصار کے سابقین اوّلین کا تھا اور ان لوگوں کا جو نیکی کے معاملے میں انکی اتباع کرتے ہیں ۔ ( إقتضاء الصراط المستقیم : 2؍615)