کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 244
جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اس درجہ غلو کہ ان میں اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا اور فریاد سے بھر پور رہتے ہیں ۔ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی تعریف میں غلو سے منع فرمایا ہے ۔ فرمان نبوی ہے : ’’لَاتُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی إِبْنَ مَرْیَمَ إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ ‘‘( بخاری ومسلم )
ترجمہ :تم مجھے میرے مقام ومرتبہ سے اتنا نہ بڑھاؤ جتنا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسی بن مریم کو بڑھایا، میں اﷲ کا ایک بندہ ہوں، تم مجھے اﷲ کا بندہ اور اس کا رسول کہو اس جشن میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط، اخلاق کا بگاڑ، اور نشیلی چیزوں کا استعمال وغیرہ دھڑلّے سے ہوتا ہے ۔
إطراء :کا معنی تعریف میں حد سے آگے بڑھ جانا ہے، اور اکثر ان کا عقیدہ ہوتا ہے کہ ان محفلوں میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم شرکت فرماتے ہیں، اور وہ برائیاں جو ان جشنوں کا لازمی حصہ ہیں، ان میں طبلے کی تھال پر اجتماعی طور پر نظمیں پڑھنا، علاوہ ازیں بدعتی صوفی اذکار کرنا شامل ہیں ۔ ان محفلوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط عام بات ہے جو کہ فتنہ کا ذریعہ بن کر زنا کاری میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے ۔ان کے دعوے کے مطابق اگر ان محافل میلاد میں یہ تمام برائیاں نہ بھی ہوں، صرف اجتماع اور کھانا اور خوشی کا اظہار ہو، تب بھی یہ نئی بدعت ہے( اور دین میں ہر نئی چیز بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے )اور نیز یہ صورت حال بدل بھی سکتی ہے اور اس میں وہ تمام برائیوں کے در آنے کا خدشہ ہے جو دیگر محفلوں میں موجود ہیں ۔
ہم کہتے ہیں کہ میلاد منانا بدعت ہے، اسلئے کہ کتاب وسنت میں ا سکی کوئی اصل نہیں ہے، نہ اس پر سلف صالح کا عمل تھا اور نہ ہی فضیلت والی صدیوں کے لوگوں کا، بلکہ اسے چوتھی صدی ہجری کے بعد شیعہ فاطمیوں نے ایجاد کیا، إمام أبو حفص تاج الدین