کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 240
حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس آئے، اور ان کے پاس کھڑے ہوکر کہا : ’’ یہ کیا ہے جسے میں تمہیں کرتا ہوا دیکھ رہا ہوں ؟ ان لوگوں نے کہا : اے ابو عبد الرحمن ! کچھ کنکریاں ہیں جسے ہم، اللّٰہِ أکبر، لا اإلٰہ إلاّ اللّٰہ، سبحان اللّٰہ ، اور الحمد ﷲ کہتے ہوئے گنتے ہیں ۔ فرمایا : تم اپنے گناہوں کو گنا کرو،اور میں تمہیں اس بات کی ضمانت دیتاہوں کہ تمہاری نیکیاں کچھ بھی برباد نہیں ہونگی۔اے امت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم پر افسوس ہے کہ تم کتنی جلد ہلاکت کی طرف بڑھ رہے ہو، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ وافر مقدار میں موجود ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی بوسیدہ نہیں ہوئے، اور آپ کے برتن تک نہیں ٹوٹے ۔ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کیا تم ایسے دین پر ہو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے زیادہ بہتر ہے، یا تم گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو ؟ ۔ انہوں نے کہا : اے ابو عبد الرحمن ! ہم تو بس خیر کے طلب گار ہیں ۔ حضرت إبن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کتنے ایسے خیر کے طلب گار ہیں جو اسے نہیں پاتے، بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک جماعت کے متعلق بتلایا تھا جو قرآن پڑھے گی لیکن وہ ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا، اور اﷲ کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ شاید ان میں سے اکثر تم ہی لوگ ہو ۔ پھر آپ ان لوگوں کے پاس سے چلے آئے ۔ عمرو بن سلمہ کہتے ہیں : ہم نے دیکھا کہ یہ تمام لوگ نہروان کی لڑائی میں خوارج سے مل کر ہمارے ساتھ جنگ کررہے تھے ۔ ( دارمی )
(ج )ایک شخص امام مالک بن أنس رحمہ اﷲ کے پاس آیا اور پوچھا کہ : ’’ میں کہاں سے احرام باندھوں ؟آپ نے جواب دیا : اس میقات سے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی ہے اور جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہے ۔ اس شخص نے کہا : اگر میں اس سے تھوڑی دور سے احرام باندھوں تو ؟ امام مالک رحمہ اللہ نے