کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 231
دا ؤد ۔ ترمذی بسندصحیح ) ترجمہ : تم میں جو ( میرے بعد )زندہ رہے گا، وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، لہٰذا تم پرلازم ہے کہ تم میری سنت اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ نیک خلفاء کی سنت کو تھام لو ‘ انہیں مضبوطی سے پکڑلو،اور اپنے ڈاڑھوں سے تھام لو ۔ اور پہلی بدعت جو ظاہر ہوئی قدریہ(۱)، مرجئہ (۲)، شیعہ (۳)اور خوارج (۴)کی بدعت تھی، جب (۱)یہ ایک گمراہ فرقہ ہے، جس کا عقیدہ ہے کہ تقدیر کی کوئی حقیقت نہیں، اور نہ ہی اﷲ تعالیٰ کو ان باتوں کا پتہ ہے جسے بندے کرنے والے ہیں، انسان خود اپنے اعمال کا خالق ہے، اور ان کے ذریعے وہ اپنی تقدیر بناتا ہے، اور اﷲ تعالیٰ کو اس کا علم اس وقت ہوتا ہے جب بندہ نے وہ کام کیا ۔ (۲)اس گمراہ فرقہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد نیک اعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، جس طرح کفر سے کوئی نیکی کار آمد نہیں ہوتی، اسی طرح ایمان لانے کے بعد کوئی معصیت نقصان دہ نہیں ہے ۔ (۳)امت کا ایک بہت بڑا فرقہ ہے جس کی کئی شاخیں ہیں، اور ہر ایک کے عقائد واعمال میں نمایاں فرق ہے، یہ فرقہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا اولین مستحق سمجھتا ہے، ان سے پہلے گذرے ہوئے خلفائے راشدین کو ظالم گردانتا ہے، سوائے چند صحابہ کے دیگر تمام صحابہ کرام کے مرتد ہونے کاعقیدہ رکھتا ہے، قرآن مجید میں نقص کا دعویٰ کرتا ہے، وغیرہ من الہفوات۔ (۴)یہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے دور کی پیداوار ہیں، کبیرہ گناہوں کے مرتکب مسلمان کو کافر قرار دیتے ہیں،اور ان کے مال اور خون کو حلال سمجھتے ہیں، اور حضرات صحابہ، جیسے حضرت علی، امیر معاویہ، عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہم کے فضائل کا انکار کرتے ہیں اور ( معاذ اﷲ )انہیں کافر قرار دیتے ہیں ۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد انتشار رونما ہوا تو حروریہ (۱)کی بدعت کا ظہور ہوا، پھر عہد صحابہ، یعنی حضرت عبد اﷲ بن عمر، حضرت عبد اﷲ بن عباس، اور حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہم جیسے صحابہ کے آخری دور میں قدریہ کا فتنہ ابھرا، اور مرجئہ ...........................