کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 23
﴿ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی ﴾ ( طٰہ : 123)ترجمہ : ’’پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے، تو جو شخص میری ہدایت کی اتباع کرے گا، وہ (دنیا میں )گمراہ نہیں ہوگا، اور نہ( آخرت میں )تکلیف اٹھائے گا ‘‘
اسی لئے وہ ’’ فرقہء ناجیہ ‘‘ (عذاب دوزخ سے نجات یافتہ )کے نام سے موسوم کئے گئے، اس لئے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نجات یافتہ ہونے کی گواہی دی ہے، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے تہتر فرقوں میں بٹنے کی خبردی، اور یہ بتایا کہ : ’’ سوائے ایک کے تمام دوزخ میں جائیں گے ‘‘جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ایک جماعت کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا : ’’ یہ وہ جماعت ہے جو اس جیسی( عقیدہ کے لحاظ سے) ہو جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں ۔‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کی خبر دی تھی وہ واقع ہوگئی، جب کہ کچھ لوگوں نے اپنے عقائد کی بنیاد، کتاب وسنّت کو چھوڑ کر یونانی فلسفیوں سے ورثے میں پائے ہوئے علمِ کلام اور منطق کے قواعد پر رکھی، اسی سے عقائد میں بگاڑ اور اختلاف پیدا ہوا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کااتحاد پارہ پارہ ہوگیا، جمعیت پھوٹ کا شکار ہوگئی اور اسلامی معاشرے کی عمارت ٹوٹ پھوٹ گئی ۔
تیسری فصل :
عقیدہ میں بگاڑ، اور اس سے بچنے کا راستہ
صحیح عقیدہ سے روگردانی ہلاکت اور بربادی ہے، کیونکہ صحیح عقیدہ ہی عملِ نافع کا سب سے بڑا محرک ہوتا ہے، انسان صحیح عقیدے کے بغیر شکوک وشبہات اور اوہام وخیالات کا شکار ہوجاتا ہے جو بسا اوقات اس پر غالب ہوکر اس کے لئے سعادت والی زندگی کے حقیقی