کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 229
اور باطنی اقوال کے متعلق ہو ۔( جامع العلوم والحکم :233 )
ان لوگوں کے لئے بدعت حسنہ کے بارے میں سوائے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے اس قول کے، جو انہوں نے تراویح کے تعلق سے کہا تھا : ’’ نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ہٰذِہِ ‘‘اور کوئی دلیل نہیں ہے ۔ نیز یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ :بہت سے کام ایسے کئے گئے جنہیں سلف نے برا نہیں جانا ۔ جیسے : قرآن مجید کو ایک کتاب کے اندر جمع کرنا، حدیثوں کو لکھنا اور انہیں جمع کرنا وغیرہ ۔
ان باتوں کا جواب یہ ہے کہ شریعت میں ان تمام کاموں کی اصل موجود ہے، اس لئے یہ نئی ایجاد نہیں ہوسکتے، حضرت عمر بن خطاب کا یہ کہنا ’’ نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ہٰذِہِ‘‘ انہوں نے اس کے لغوی معنے مراد لئے تھے نہ کہ شرعی ۔ اگر کہا جائے کہ یہ بدعت ہے، تو یہ لغوی بدعت ہوگی نہ کہ شرعی بدعت ۔ اس لئے کہ شرعی بدعت وہ ہے جس کی دین میں کوئی اصل نہ ہو ۔
اور قرآن مجید ایک کتاب میں جمع کرنے کی شریعت میں اصل موجود ہے، اس لئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید لکھنے کا حکم دیتے تھے، لیکن وہ لکھی ہوئی آیتیں بکھری ہوئی تھیں، اس لئے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے انہیں محفوظ کرنے کے لئے ایک کتاب میں جمع کردیا
اور تراویح بھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کے ساتھ جماعت سے چند راتیں ادا فرمایا، آخر میں انہیں فرض ہوجانے کے خدشہ کی بنا پر چھوڑ دیا، اور تمام صحابہ کرام اسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اور آپ کی وفات کے بعد بھی مختلف ٹولیوں میں بٹ کر برابر پڑھتے رہے، یہاں تک کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ نے انہیں ایک امام کے تابع اسی طرح جمع کردیا جس طرح وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں