کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 215
۱۔ ان میں سے اکثر آثار جھوٹ وافتراء پر مشتمل ہیں، جنہیں اعدائے صحابہ نے ان کی کردار کشی کے لئے پھیلایا ہے ۔
۲۔ ان آثار میں سے اکثر میں کچھ نہ کچھ حذف واضافہ ضرور کیا گیا ہے، اور ان میں صحیح سے ہٹ کر جھوٹ شامل کیا گیا ہے، اس لئے یہ تحریف شدہ آثار ہیں جوکہ لائق التفات نہیں ہیں ۔
۳۔ ان آثار کے بارے میں جو صحیح ہیں (اور جن کی تعداد نہایت تھوڑی ہے )اہل سنت والجماعت اس معاملے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معذور سمجھتے ہیں، اس لئے کہ اس معاملے میں وہ اپنے اجتہاد میں یا تو حق تک پہنچے ہوئے ہیں، یا ان سے چُوک واقع ہوئی ہے، اور یہ معاملہ بھی ایک اجتہادی معاملہ تھا، جس میں صحیح فیصلہ تک پہنچنے والے کے لئے دو اجر ہیں اور غلطی کرنے والے کے لئے ایک اجر ہے اور غلطی بھی معاف ہے، جیسا کہ حدیث میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’ إِذَا اجْتَہَدَ الْحَاکِمُ فَأَصَابَ فَلَہُ أَجْرَانِ، وَإِنِ اجْتَہَدَ فَأَخْطَأَ فَلَہُ أَجْرٌ وَاحِدٌ ‘‘(متفق علیہ )ترجمہ : جب حاکم اجتہاد کرتے ہوئے درست فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، اگر وہ اپنے اجتہاد میں غلطی کرتا ہے تو اسے ایک اجر ملے گا ۔
۴۔ وہ انسان تھے، اور ان سے غلطی اور چُوک ممکن ہے، وہ شخصی طور پرگناہوں سے معصوم نہیں ہیں، لیکن ان سے ہونے والی ان خطاؤں کے لئے ( ان گنت عظیم )نیکیاں ہیں جو کہ انہیں دُھل دینے کا باعث بنیں گی، جن میں سے چند یہ ہیں :
۱۔ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان خطاؤں پر توبہ کرلیا ہو، اور توبہ بڑے سے بڑے گناہ کو بھی مٹا دیتا ہے، جیسا کہ اس کے بارے میں قرآن اور احادیث کے کئی دلائل ہیں ۔
۲۔ان کے بے شمار فضائل و مناقب اور اولیات ہیں جو ان خطاؤں کی مغفرت کا