کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 213
کے ہاتھ پر بیعت کی، جو اس وقت کے تمام لوگوں میں خلافت کے سب سے زیادہ مستحق اور افضل تھے، لیکن دل پراگندہ تھے اور فتنہ کی آگ بھڑک رہی تھی، جس کی وجہ سے اتفاق رائے نہ ہوسکا، جماعت کی شیرازہ بندی نہ ہوسکی، جس کی وجہ سے خلیفہء وقت اور امت کے نیک لوگ وہ کام نہیں کرسکے جو وہ چاہتے تھے، پھر اس انتشار اور فتنہ میں کئی قومیں کود پڑیں، اس کے بعد جو کچھ ہوا سب جانتے ہیں ۔
إمام إبن تیمیہ رحمہ اﷲ،حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہما کی آپسی جنگ میں شریک صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم أجمعین کا عذر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اپنی خلافت کا دعویٰ نہیں کیا، اور نہ جس وقت وہ ان سے جنگ کررہے تھے انہوں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ پربیعت خلافت کی تھی، اور نہ ہی انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس لئے جنگ کی کہ وہ خلیفہ ہیں اور نہ وہ اپنے آپ کو خلافت کا مستحق سمجھتے تھے، بلکہ جو شخص اس بارے میں ان سے سوال کرتا تو وہ ان کے خلیفہ ہونے کا اقرار کرتے تھے،اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ میں پہل کرنے کو بھی جائز نہیں سمجھتے تھے ۔
جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کی یہ رائے تھی کہ حضرت معاویہ اور ان کے ساتھیوں پر ان کی اطاعت اور بیعت واجب ہے، کیونکہ مسلمانوں کا ایک ہی خلیفہ ہوسکتا ہے، اور یہ لوگ ان کی اطاعت سے باہر ہیں اور اس واجب سے رُکے ہوئے ہیں، اور جب کہ وہ طاقتور بھی ہیں، اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کرنی ضروری سمجھا، تاکہ اطاعت اور اتفاق حاصل ہو ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت ان پر واجب نہیں ہے، اگر اس بات پر ان سے جنگ کی جائے تو وہ مظلوم ہوں گے، ان کا