کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 212
اس کے کچھ کوتاہ نظر، ضعیف الإیمان اور فتنہ پرور شخص جمع ہوگئے، اور یہ سازش حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے مظلومانہ قتل تک لے گئی، اور آپ کی شہادت کے ساتھ ہی مسلمانوں میں اختلاف شروع ہوگیا اور یہ فتنہ اس یہودی اور اس کے متبعین کے بہکاوے کی وجہ سے اور زیادہ گہرا ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ صحابہ کرام اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق آپس میں دست بگریباں ہوگئے ۔
شارح عقیدۃالطحاویۃ إمام أبی العزّ رحمہ اﷲفرماتے ہیں : فتنہ رافضیت کا بانی ایک منافق اور زندیق تھا، جس کا مقصد دین اسلام کو تباہ کرنا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت پر کیچڑ اچھالنا تھا، جیسا کہ علماء نے ذکر کیا ہے کہ عبد اﷲ بن سبا نے جب اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنی مکاری اور خباثت سے دین اسلام میں فساد برپا کرنا چاہا ( جیسا کہ پولَس نے عیسائی مذہب کے ساتھ کیا )تو اس نے اپنے زُہد وتقویٰ کا اظہا کیا، پھر أمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے لگا، یہاں تک کہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے قتل کا فتنہ برپا کیا، پھر جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ کوفہ تشریف لائے تو ان کی ذات میں غلو، اور ان کیلئے اپنی مدد وتائید کا اعلان کرنے لگا، تاکہ اس کے ذریعے وہ اپنے دیرینہ مقاصد حاصل کرسکے، جس وقت حضرت علی کو اسکی اس کارکردگی کا پتہ چلا تو آپ نے اسے قتل کرنے کیلئے طلب کیا، لیکن وہ آپ سے بچ کر قرقیس کی طرف بھاگ نکلا۔ اور اسکی ساری تفصیل تاریخ میں محفوظ ہے ۔
شیخ الإسلام إمام إبن تیمیہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں : حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد دل منتشر ہوگئے، مصائب بڑے ہوگئے، اشرار غالب ہوگئے، نکوکار مغلوب ہوگئے، جو کل تک عاجز تھا آج وہ فتنہ جوئی کرنے لگا، نیکی اور بھلائیوں کو قائم کرنے والے عاجز ہوگئے، ایسے حالات میں انہوں نے حضرت علی بن أبی طالب رضی اﷲ عنہ