کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 207
اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا أُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا،یَا فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، سَلِیْنِیْ مِنْ مَالِیْ مَاشِئْتِ، لَا أُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ۔‘‘(بخاری ) ترجمہ : اے جماعتِ قریش ! ( یا اسی طرح کا کوئی لفظ )تم اپنی جانوں کو بچالو، کیونکہ میں اﷲ تعالیٰ کے پاس تمہارے کچھ بھی کام نہیں آسکتا،اے عباس ابن عبد المطلب! میں اﷲ تعالیٰ کے پاس آپکے کچھ کام نہیں آسکتا، اے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپی صفیہ ! میں اﷲ تعالیٰ کے پاس تمہارے بھی کچھ کام نہیں آسکتا، اے فاطمۃ بنت محمد! میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لے، میں اﷲ تعالیٰ کے پاس تیرے کچھ بھی کام نہیں آسکتا۔ اور حدیث میں ہے : ’’ مَنْ بَطَّأَ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بِہِ نَسَبُہُ ‘‘ ( مسلم ) ترجمہ : جس کا عمل سست ہو اس کا نسب اسے آگے نہیں لے جا سکتا ۔ اور اہل سنت روافض کے طریقے سے اظہار براء ت کرتے ہیں جو اہل بیت میں غلو کرتے اور ان کے معصوم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور ان خوارج کے طریقے سے بھی بیزاری کا اعلان کرتے ہیں جو اہل بیت کے اصحاب استقامت سے دشمنی کرتے اور ان پر سبّ وشتم کرتے ہیں، اور ان بدعتیوں اور خرافی لوگوں کے طریقے سے بھی پاک ہیں جو اہل بیت کو وسیلہ بناتے اور انہیں اﷲ کے سوا رب بناتے ہیں ۔ اس بارے میں اہل سنت کا منہج، اعتدال کا منہج ہے، یہ وہ صراط مستقیم ہے جو افراط وتفریط سے پاک ہے، جس میں اہل بیت وغیرہ کی حق تلفی ہے اور نہ ان کے بارے میں غلو ہے، اور حق پر قائم اہل بیت اپنے بارے میں غلو کو ہرگز پسند نہیں کرتے، اور وہ غلو کرنے والوں سے اعلان براء ت کرتے ہیں، أمیر المؤمنین حضرت علی بن أبی طالب رضی اﷲ عنہ نے اپنے متعلق غلو کرنے والوں کو آگ میں جلا دیا تھا، اور حضرت عبد اﷲ بن عباس نے بھی