کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 203
اﷲ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے پاس ملأاعلیٰ میں قدر ومنزلت کی خبر دی ہے، کہ وہ بذات خود اپنے مقرب فرشتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وثنا فرماتا رہتا ہے، اور فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، پھر اس نے اہل دنیا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے عالم علوی اور عالم سفلی کے رہنے والوں کی تعریف جمع ہوجائے ۔
﴿ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اسلامی سلام بھیجو ۔
جب کوئی مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے تو درود اور سلام دونوں کو اکٹھا کرلے، ان میں سے کسی ایک پر اکتفا نہ کرے، جیسے : صرف ’’ صلّی اﷲ علیہ ‘‘نہ کہے، اور نہ ہی صرف ’’ علیہ السلام ‘‘کہے، اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں کا حکم دیا ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم کئی ایسی جگہوں پر آیا ہے جس سے یہ بات متأکد ہوجاتی ہے کہ درود بھیجنا واجب ہے یا سنّت مؤکدہ ۔إمام إبن قیم رحمہ اﷲ نے اپنی کتاب ’’ جلاء الأفہام‘‘ میں اکتالیس (41)ایسے مقامات کا تذکرہ فرمایا ہے، جہاں درود پڑھنا مسنون اور ضروری ہے، اس کی تفصیل بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں :
پہلا مقام : جو سب سے زیادہ اہم ہے اور جس کی سب سے زیادہ تاکید ہے، وہ ہے نماز کا آخری تشہد ۔ تمام مسلمانوں کا ا س جگہ درود پڑھنے کے مسنون ہونے پر اتفاق ہے، لیکن اس کے واجب ہونے کے متعلق اختلاف ہے ۔
پھر دیگر مقامات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : دعائے قنوت کے آخر میں ۔ خطبات ( جیسے خطبہء جمعہ، عیدین اور استسقاء )میں، مؤذن کی اذان کا جواب دینے کے بعد، دعا کرتے وقت، مسجد میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کے وقت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی سننے کے بعد ۔