کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 197
کی مغفرت اور اجر عظیم ہے ۔ بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگ بے عقل ہیں، اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ انکے پاس نکل کر آتے، تو ان کے لئے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا معاف کرنے والا اور بے حد رحم کرنے والا ہے ۔ امام إبن کثیر رحمہ اﷲ، ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں ادب سکھلایا ہے کہ وہ کس طرح آپ کا احترام وتوقیر اور عزت وتعظیم کریں،....اور یہ کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں آ پ کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کریں ۔ اور اﷲ تعالیٰ نے اس بات سے بھی منع فرمادیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو،نام لے کر ’’ یا محمد ‘‘اسی طرح پکارا جائے جیسے عام لوگوں کو پکارا جاتا ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت اور رسالت کے مقام ومرتبہ سے پکارتے ہوئے ’’ اے اﷲ کے رسول ‘‘ ’’ اے اﷲ کے نبی ‘‘کہا جائے،ارشاد ربّانی ہے : ﴿ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآئَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآئِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا ﴾ ( النور : 63 ) ترجمہ :مسلمانو! رسول کے بلانے کو تم آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی طرح نہ بناؤ جیسا کہ خود اﷲ تعالیٰ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’ یا أیّھا النبی ‘‘’’ یا أیّھا الرسول ‘‘کہہ کر مخاطب فرماتا ہے، اور اﷲ اور اس کے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، اور اس نے اپنے بندوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ ارشاد فرماتا ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَآئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْ