کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 186
تجھ سے مانگنے والوں کے حق کا وسیلہ دیتے ہوئے مانگتا ہوں ۔‘‘ تو یہ حدیث ثابت نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں ایک راوی عطیہ العوفی ہے، جس کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے، جیسا کہ بعض محدثین نے ذکر کیا ہے، اگر وہ ضعیف نہ بھی ہو تو اس حدیث سے عقیدہ جیسے اہم امور میں دلیل نہیں پکڑی جاسکتی، علاوہ ازیں یہ حدیث کسی متعین شخص کا وسیلہ پکڑنے کے متعلق نہیں ہے، بلکہ بالعموم اﷲ سبحانہ سے دعا مانگنے والے تمام لوگوں کے حق سے توسل حاصل کرنے کے متعلق ہے، اور دعا کرنے والوں کا حق، قبول کرنا ہے، جیسا کہ اﷲ سبحانہ نے ان سے اس کا وعدہ فرمایا ہے ۔ اور قبولیت کا حق بھی اﷲ سبحانہ نے اپنے طور پر لازم کرلیا ہے، کسی دوسرے نے اس پر واجب قرار نہیں دیا، پھر تو ایسا کہنا اس کے سچے وعدے سے وسیلہ پکڑنا ہے نہ کہ مخلوق کے حق سے ۔ ۵۔مخلوق سے فریاد کرنے اور مدد طلب کرنے کا حکم استعانت : کسی معاملے میں مدد وتائید طلب کرنے کو کہتے ہیں ۔ استغاثہ : مصیبت دور کرنے کی فریاد کو کہتے ہیں ۔ مخلوق سے استعانت اور استغاثہ دو طرح کا ہوتا ہے : ۱۔ مخلوق سے ان چیزوں میں استعانت اور فریاد طلبی کی جاسکتی ہے جن پر کہ وہ قادر ہو، اور یہ جائز ہے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے : ﴿ وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ﴾ ( المائدۃ : 2)ترجمہ : نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں آپس میں تعاون کرو ۔ اور جیسا کہ اﷲ سبحانہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں ذکر کیا : ﴿فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِہٖ عَلَی الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّہٖ ﴾ ( القصص : 15)ترجمہ : جو آدمی ان کی جماعت کا تھا، اس نے ان سے اس کے خلاف مدد مانگی، جو انکے دشمنوں میں سے تھا ۔ جیسا کہ انسان جنگ وغیرہ میں اپنے ساتھیوں سے ان کاموں میں مدد طلب کرتا ہے جن پر