کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 185
علم حدیث کے علماء میں سے کسی نے اس کو ذکر کیا ہے ۔ ( مجموع الفتاویٰ : 10؍319) اور جب تک اس کی صحیح دلیل نہ ہو تب تک اس پر عمل جائز نہیں، اس لئے کہ عبادات واضح دلیل سے ہی ثابت ہوتی ہیں ۔ ۳۔ مخلوق کی ذات سے توسل جائز نہیں ہے : اس لئے کہ اگرمذکورہ حدیث میں لفظ ’’ بجاہی‘‘میں اگر ’’ باء ‘‘قسم کے لئے ہے تو اس شخص کی قسم اﷲ کو دینی ہے، جب مخلوق کو مخلوق کی قسم دینی ناجائز اور شرک ہے تو پھر مخلوق کی قسم خالق عز وجل کو دینی کیسے جائز ہوگی ؟ اگر ’’ باء ‘‘سبب بیان کرنے کے لئے ہے تو اﷲ سبحانہٗ نے مخلوق کے ذریعے سے مانگنا قبولیت کا سبب قرار نہیں دیا اور نہ ہی اسے اپنے بندوں کے لئے جائز قرار دیا ہے ۔ ۴۔ مخلوق کے حق کا توسّل دو وجوہات کی بناء پر جائز نہیں ہے : پہلا سبب : اس لئے کہ اﷲ سبحانہ پر کسی مخلوق کا حق واجب نہیں ہے، بلکہ وہی اپنی مخلوق پر فضل واحسان فرماتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے : ﴿ وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾( الروم : 47) ترجمہ : اور ہم پر مومنوں کی تائید ونصرت واجب تھی ۔ مطیع وفرمانبردار ثواب کا مستحق ہوتا ہے، اور یہ اﷲ سبحانہ کے فضل واحسان سے ملتا ہے، یہ بدلہ اور عوض کا معاملہ نہیں ہے جیسا کہ مخلوق کے مابین عمومًا ہوتا ہے ۔ دوسرا سبب : یہ وہ حق ہے جس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر فضل وکرم کرتا ہے، یہ اس کا خاص حق ہے، کسی دوسرے کا اس سے کوئی تعلق نہیں، اگر کسی نے اس حق کا غیر مستحق شخص کے ذریعے وسیلہ پکڑا تو اس نے ایک بیرونی معاملے سے توسل چاہا جس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اور یہ امر اس کو کچھ بھی فائدہ مند نہیں ہے ۔ اور رہی وہ حدیث، جس میں مذکور ہے : ’’ أَسْأَلُکَ بِحَقِّ السَّائِلِیْنَ ‘‘ ترجمہ : میں