کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 184
کی، بلکہ حضرت عباس اور یزید بن الأسود رضی اﷲ عنہما جیسے زندہ بزرگ صحابہ کرام کی طرف رجوع کیا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دعا کرتے ہوئے کہا :
’’ أَللَّہُمَّ إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیَنَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا‘‘ ترجمہ : یا اﷲ ! ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تیرا وسیلہ پکڑتے تھے اور تو ہمیں ( بارانِ رحمت برسا کر )پلاتا تھا، اور اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے ذریعے تیرا وسیلہ پکڑتے ہیں، تو ہمیں پلادے ۔ صحابہ کرام کو مشروع طریقے سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ پکڑنا ناممکن ہوگیا تو انہوں نے حضرت عباس کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدل بنادیا۔حالانکہ یہ ممکن تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس پر آتے اور اس کا وسیلہ پکڑتے ۔( مجموع الفتاویٰ : 1؍318۔319)
یعنی اگر یہ جائز ہوتا تو وہ کرتے، لیکن ان کا اس طریقہ کو چھوڑ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ فوت شدگان کا وسیلہ پکڑنا، ان سے دعا کرنے کی درخواست ناجائز ہے اور نہ ہی سفارش طلب کرنا ۔ اگر زندہ اور مردہ دونوں سے دعا اور سفارش طلب کرنا جائز ہوتا تو صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی افضل ہستی کو چھوڑ کر انکی طرف ہرگز رجوع نہیں کرتے جو مقام ومرتبہ میں بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہیں ۔
۲۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یا اور کسی دوسرے کے مقام ومرتبہ کا توسل نا جائز ہے :
وہ حدیث جس میں یہ آیا ہے کہ : ’’ إِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْئَلُوْہُ بِجَاہِیْ، فَإِنَّ جَاہِیْ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمٌ ‘‘ ترجمہ : جب تم اﷲ سے مانگو تو میرے مقام ومرتبے کے وسیلے سے مانگو، اس لئے کہ اﷲ کے پاس میرا مقام بہت عظیم ہے ۔
یہ ایک جھوٹی حدیث ہے، جو مسلمانوں کی کسی معتمد کتاب میں مذکور نہیں ہے، اور نہ ہی