کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 16
زیادہ دکھ کی نہ ہوتی، لیکن غم اس بات کا ہے کہ علمائے دیوبند نے عقائد کے بگاڑ میں وہ کارنامے انجام دئے کہ عام خوش عقیدہ مسلمانوں سے دو چار ہاتھ نہیں بلکہ میلوں آگے بڑھ گئے،اسکی کچھ مثالیں انہی کی کتابوں سے پیشِ خدمت ہیں :
انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں کہ زبان میری ہے بات انکی
انہی کی محفل سنوارتا ہوں، چراغ میرا،ہے رات ان کی
٭ان کے زندہ بزرگ کمرہ میں موجود رہتے ہوئے بھی آنِ واحد میں ہزاروں میل دور سمندر ی گرداب میں پھنسی ہوئی ایک ایسی کشتی کو جس پر ان کا اپنا ایک مرید سوار تھا بچانے کے لئے نہ صرف پہنچ گئے بلکہ سمندر میں گھس کر اپنی پیٹھ کے بل اس کشتی کو گرداب سے نکال ڈالا :
’’ میرے ایک دوست جو بقیۃ السلف حجۃ الخلف قدوۃ السالکین زبدۃ العارفین شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا حاجی شاہ امداد اﷲ صاحب چشتی صابری تھانوی ثم المکی سلمہ اﷲ سے بیعت تھے، خانہ کعبہ کو تشریف لے جاتے تھے، بمبئی سے آگبوٹ میں سوار ہوئے، آگبوٹ نے چلتے چلتے ٹکر کھائی اور قریب تھا کہ چکر کھا کر غرق ہوجائے، یا دوبارہ ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے، انہوں نے جب دیکھا کہ اب مرنے کے سوا چارہ نہیں، اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیرِ روشن ضمیر کی طرف خیال کیا اور عرض کیا کہ اس وقت سے زیادہ کونسا وقت امداد کا ہوگا ؟ اﷲ تعالیٰ سمیع وبصیر اور کار ساز مطلق ہے ۔ اسی وقت ان کا آگبوٹ غرق سے نکل گیا اور تمام لوگوں کو نجات مل گئی ۔
ادھر تو یہ قصہ پیش آیا اور ادھر اگلے روز مخدوم جہاں اپنے خادم سے بولے : ’’ ذرا میری کمر دباؤ نہایت درد کرتی ہے ‘‘خادم نے کمر دباتے دباتے پیراہن مبارک جو اٹھایا تو دیکھا کہ کمر چھلی ہوئی ہے اور اکثر جگہ سے کھال اتر گئی ہے ۔ پوچھا : حضرت یہ