کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 15
ہمارے دورِ ادبار کی ساکن سطح میں اس سے جو جنبش ہوئی وہ بھی ہمارے لئے بجائے خود مفید اور لائقِ شکریہ ہے ۔ بہت سی بدعتوں کا استیصال ہوا، توحید کی حقیقت نکھاری گئی، قرآن پاک کی تعلیم وتفہیم کا آغاز ہوا، قرآن پاک سے براہِ راست ہمارا رشتہ دوبارہ جوڑا گیا، حدیثِ نبوی کی تعلیم وتدریس اور تالیف واشاعت کی کوششیں کامیاب ہوئیں اور دعوی کیا جاسکتا ہے کہ ساری دنیا میں ہندوستان ہی کو صرف اس تحریک کی بدولت یہ دولت نصیب ہوئی ۔ نیز فقہ کے بہت سے مسئلوں کی چھان بین ہوئی ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اتباعِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو جذبہ کم ہوگیا تھا وہ دوبارہ پیدا ہوگیا ۔ اس تحریک کی ہمہ گیر تاثیر یہ بھی تھی کہ وہ ’’جہاد ‘‘ جس کی آگ اسلام کے مجمر میں ٹھنڈی پڑ گئی تھی وہ پھر بھڑک اٹھی ۔ یہاں تک کہ ایک زمانہ گذرا کہ وہابی اور باغی مترادف لفظ سمجھے گئے اور کتنوں کے سر قلم ہوگئے، کتنوں کو سولیوں پر لٹکنا پڑا اور کتنے پابجولان دریاے شور عبور کردئے گئے یا تنگ کوٹھڑیوں میں انہیں بند ہونا پڑا ۔اس تحریک کا ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ مدت کا زنگ طبیعتوں سے دور ہوا اور یہ جو خیال ہوگیا تھا کہ اب تحقیق کا دروازہ بند اور نئے اجتہاد کا دروازہ مسدود ہوچکا ہے، رفع ہوگیا اور لوگ از سرِ نو تحقیق وکاوش کے عادی ہونے لگے ۔ قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ سے دلائل کی خو پیدا ہوئی اور قیل وقال کے مکدر گڑھوں کے بجائے ہدایت کے اصلی سر چشمہء مصفّا کی طرف واپسی ہوئی ۔
( مقالات سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ : از صباح الدین عبد الرحمن رحمہ اللہ )
افسوس کہ دیوبندی علماء کا ایک بڑا طبقہ جوکہ معرکہء بالا کوٹ تک اس تحریک کے ساتھ تھا لیکن شہیدین کی شہادت کے بعد اس نے اس تحریک سے اپنے دامن کو اس طرح جھٹک لیا گویا اس سے اسکا کوئی تعلق ہی نہ تھا، اگر بات یہیں تک رہتی تو اتنے