کتاب: عقیدہ توحید - صفحہ 11
نور بنائے ہوئے تھا، اور ابھی تک عقائد کو بگاڑنے کی جو تحریکیں عبد اﷲ بن سبا اور اس کے خاندان کی طرف سے اٹھی تھیں انہیں پھلنے اور پھولنے کا موقع نہیں ملا تھا، اور خلافت راشدہ کے بعد ساری اسلامی تاریخ میں بنو امیہ کا دور اس لحاظ سے سب سے ممتاز رہا ہے کہ انہوں نے اسلامی عقائد کی اپنی تلوار سے حفاظت کی، اور عقیدہ توحید کے خلاف جو بھی تحریک اٹھی انہوں نے اسے اپنے فولادی ہاتھوں سے مسل ڈالا ۔
بنو امیہ کی چھوڑی ہوئی عظیم سلطنت، جس کا رقبہ اسپین وپرتگال سے لیکر پنجاب تک پھیلا ہوا تھا، کے وارث بنو عباسیہ ہوئے، لیکن وہ اس عظیم سلطنت کو ایک دن کیلئے بھی سنبھال نہ سکے، بلکہ اس کا دائرہ روز بروز سمٹتا ہی چلا گیا، اس صورت حال کو غنیمت جانتے ہوئے، ہندوستان کے راجوں مہاراجوں نے پنجاب اور سندھ کے جن علاقوں کو عربوں نے فتح کرلیا تھا، ان کے قبضے سے چھڑالیا، اور عربوں کا اقتدار صرف بلوچستان اور مکران کے چند علاقوں تک سمٹ کر رہ گیا، اور اس طرح ہندوستان کے باشندے اس صحیح اسلام سے،جو ہر طرح کے عجمی فلسفے اور تصوف سے پاک تھا، محروم ہوکر رہ گئے ۔
اسکے تین صدیوں بعد پھر غزنویوں، غلاموں، تغلقوں، خلجیوں، سوریوں اور مغل خاندانوں کا دور آیا، لیکن افسوس کہ ان میں سوائے محمد بن تغلق اور محی الدین اورنگ زیب کے کسی میں اسلام کی نشر واشاعت کا کوئی جذبہ نہیں تھا، بلکہ وہ خود بھی صحیح اسلام سے روشناس نہیں تھے، انہوں نے ایران سے درآمد شدہ شیعی نظریات، اور ہندو جوگیوں، رُشیوں اور مُنیوں سے مستعارلئے گئے تصوف کو ہی اسلام کا سب سے بڑا کمال جانا، جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت سنّی ہونے کے باوجود شیعی عقائد ونظریا ت، اور تصوف کے نام پر ہندو فلسفے اور رہبانی خیالات کی پابند ہوکر شرک اور بدعات اور اوہام وخرافات کی پابند ہوگئی ۔