کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 96
۹۸: ہمیں ابوسعید بن حمدون نے خبر دی ،ان کو ابو حامد بن الشرقی نے بیان کیا ان کو احمد بن یوسف السلمی نے بیان کیا ،ان کو عبدالرزاق نے ان کو معمر نے خبر دی و ہ ثابت سے روایت کرتے ہیں وہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " شفاعتی لأہل الکبائر من أمتی ". کہ میری امت میں سے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے میری سفارش ہے ۔[1] ۹۹: اور ہمیں ابوعلی زاہر بن احمد نے خبر دی ان کو محمد بن مسیب الارغیانی نے ان کو حسن بن عرفہ نے بیان کیا ان کو عبدالسلام بن حرب الملائی نے وہ زیاد بن خیثمہ سے وہ نعمان بن قراد سے وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیرت بین الشفاعۃ وبین أن یدخل شطر أمتی ................................................................................. سفارش کوشریعت میں ’’شفاعت ‘‘کہاجاتاہے اور شفاعت کے لیے بنیادی شروط قرآن و حدیث میں ہیں ۔ ۱ :جس کے لیے سفارش کی جائے گی اللہ تعالیٰ اس پر راضی ہو گا یعنی وہ شرک سے پاک اور اہل توحید سے ہو ۔[الانبیاء:۲۸] ۲: اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں ہو سکے گی ،یعنی اللہ تعالیٰ مرضی و مشیئت کے بغیر کوئی بھی اللہ سے سفارش نہیں کر سکے گا اورنہ ہی کسی کو اللہ کے اوپرحق ہے اپنے سفارش کرنے پر۔[البقرہ:۲۵۵] ۳: اوراللہ کی اجازت اور رضامندی کے بغیر کسی کو سفارش فائدہ نہ دے گی۔[النجم:۲۶]
[1] صحیح ۔ابوداود: (۴۷۳۹)، ترمذی:(۲۴۳۵)، مسند احمد(:۳/۲۱۳)، صحیح ابن حبان :(۶۴۶۸)،مستدرک حاکم:(۱/۶۹)،مسند طیالسی: (۲۰۲۶)، التوحید لابن خزیمۃ: (۳۹۲،۳۹۳)،مسندالبزار:(۳۴۶۹۔کشف الاستار)،مسند ابی یعلی: (۳۲۸۴،۴۱۰۵،۴۱۱۵) ، الموضح للخطیب:(۲/۵۶)،الاوسط للطبرانی: (۲۵۶۶،۸۵۱۸)، المعجم الصغیر للطبرانی:(۴۴۸،۱۱۰۱)