کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 90
اور بعض سلف سے ہے کہ اسلام کامقام صرف اور صرف تسلیم کرنے سے ثابت ہوتا ہے۔(45) حافظ ابن عبدالبرنے کہا کہ علماء کا اس بات پرا تفاق ہے کہ اللہ کی صفات حقیقی اور ظاہری مانی جائیں جس طرح قرآن و حدیث میں وارد ہیں ان کا معنی بھی بغیر تاویل کے حقیقی سمجھا جائے،اور بغیر کیفیت کے سوال کیے اور ان کے اندر الجھنے کے بغیر۔التمہید:(۲؍۱۰۵) ۹۲: ہمیں ابو طاہر بن خزیمہ نے خبردی ، ان کو میرے دادا الامام نے بیان کیا ، ان کو احمد بن نصر نے، ان کو ابو یعقوب الحنینی نے ، ان کو کثیر بن عبد اللہ المزنی نے ،وہ اپنے باپ، دادا سے روایت کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقیناً یہ دین اجنبی شروع ہواتھا اور عنقریب یہ دوبارہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹ آئے گا جس طرح پہلے اجنبی تھا۔ خوشخبری ہے اجنبیوں کیلیے ۔کہا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اجنبی لوگ کون سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا:’’وہ لوگ جو میرے بعد میری سنت کو زندہ کریں گے اور میری سنت لوگوں کو سکھلائیں گے (46) ۹۳: ہمیں ابوعبداللہ الحافظ نے خبر دی ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوحسن الکارزی سے سنا،وہ کہتے ہیں میں نے علی بن عبدالعزیز سے سنا ،انھوں نے ابوعبید القاسم بن ................................................................................. (45)شرح السنۃ للبغوی:(۱؍۱۷۱)حافط سجزی نے کہا کہ اماموں کا اتفاق ہے کہ اللہ کی وہی صفات کا تذکرہ ہوگا جن کو اللہ نے خود ذکرکیا ہے ۔[1] (46) اس حدیث کا آخری حصہ ضعیف ہے۔[2]
[1] الرد علی من انکر الحرف والصوت :(ص:۱۲۱) [2] سنن الترمذی: (۲۶۳۰)الزھد للبیہقی :(۲۰۵)، الجامع للخطیب: (۸۹)شرف اصحاب الحدیث :(ص۲۳)الالماع للقاضی عیاض: (ص۱۸،۱۹)اس کی سند میں کثیر بن عبداللہ المزنی متروک ہے۔میزان الاعتدال :(۳/۴۰۷) نیز دیکھیں الصحیحۃ :(۱۲۷۳ کے تحت)۔اور حدیث کا پہلا حصہ یعنی بدا لاسلام غریبا صحیح مسلم :(۱۴۵)میں ہے۔ اس کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔