کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 85
ہیں اور اگر میں ہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنی ہوتی تو میں بھی یہ نہ کہتا ۔اس نے کہا مجھے خبر دیں (فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا)(الذاریات:۳)کے بارے میں تو آپ نے کہا کہ اس سے مراد کشتیاں ہیں ،اور کہا اگرمیں نے یہ تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنی ہوتی تومیں کبھی بھی یہ نہ کہتا۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ اس کو سو کوڑے مارے گئے ،پھر اس کو ایک گھر میں قید دیا ،یہاں تک کہ وہ ٹھیک ہوگیا پھر آپ نے اس کو بلایا پھر اس کو سو کوڑے مارے ،پھر اس کو اونٹ کے پالان پر بٹھا دیا اور سیدنا ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا کہ تو اس کے پاس لوگوں کا بیٹھنا منع کر دے وہ ہمیشہ اسی طرح رہا یہاں تک کہ وہ سیدنا ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور پختہ قسم اٹھائی کہ اب وہ اپنے نفس میں ایسی کوئی چیز نہیں پاتا جو پہلے محسوس کرتا تھا تو انھوں نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا اور اس کے معاملے کی خبر دے تو انہوں نے کہا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ یہ سچ کہہ رہا ہے اس کو چھوڑ دیں اورلوگوں کو اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت دے دیں ۔(41) ................................................................................................................... (41) ضعیف جدا۔مسند بزار: (۲۹۹،کشف الاستار:۲۲۵۹)،ابن عساکر: (۴؍۲۳۱۔۲۳۲)،الشریعۃ للآجری:( ص:۷۳،دوسرا نسخہ:۱۶۔۱۶۱،قال محققہ: رجالہ ثقاتسنن الدارمی:(۱۴۶)،شرح الاعتقاد للالکائی: (۱۱۳۸)سلیمان بن یسار نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا اس لیے یہ قصہ ضعیف ہے۔اور اس میں سعید بن سلام العطار کذاب راوی بھی ہے ۔حافظ ہیثمی نے کہا :رواہ البزار وفیہ ابوبکر بن ابی سبرہ وھو متروک۔[1]
[1] مجمع الزوائد:(۷/۱۷۵۔۱۷۶ ،رقم:۱۱۳۶۵)