کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 84
ان کی مجلس میں بیٹھے ایک آدمی نے کہا :اے ابو خالد!اس حدیث کا کیا معنی ہے ؟تو وہ غصے میں آگئے اور کہا کہ کس چیز نے تجھے صبیغ کے مشابہے کر دیا ہے اور تجھے کیا ضرورت پڑی کہ تو نے اس طرح کا کام کیا جو اس کے ساتھ ہواافسوس ہے تجھ پر،اور کون جانتا ہے وہ کیسے ہے ؟اور کسی کے لیے جائزنہیں کہ وہ اس بات سے تجاوز کرے جس کو حدیث نے بیان کیاہو۔یا اس کے بارے میں اپنی طرف سے بات کرے ،یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جس نے اپنے آپ کو بیوقوف بنا رکھا ہے اور اپنے دین کو ہلکا سمجھتا ہے۔جب تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنو تو فورا اس کی پیروی کرو اور اس میں کوئی بدعت ایجاد نہ کرو،اگر تم اس کی پیروی کرو گے اور اس میں شک اور جھگڑا نہیں کرو گے تو محفوظ رہوگے اور اگر ایسا نہیں کرو گے توتم ہلاک ہو جاؤ گے۔ ۸۳: اور صبیغ کا قصہ درج ذیل ہے : یزید بن ھارون نے سائل سے کہا کہ کس چیز نے تجھے صبیغ کے مشابہے کیا ہے اور تجھے کیا ضرورت ہے اس طرح کرنے کی جو اس کے ساتھ کیا گیا ۔اس قصہ کو یحیی بن سعید نے سعید بن المسیب سے روایت کیا بے شک صبیغ التمیمی امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیااور کہا :اے امیر المومنین !آپ مجھے خبر دیں (وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا)(الذاریات:۱)کے بارے میں ،تو آپ نے کہا: کہ اس سے مراد ہوائیں ہیں ،اور اگر میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنی ہوتی تو میں یہ نہ کہتا ۔اس نے کہا آپ مجھے خبر دیں (فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا (الذاریات:۲)کے بارے میں ؟آپ نے کہا کہ اس سے مراد بادل ہیں اور اگر میں یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنی ہوتی تو میں یہ نہ کہتا۔اس نے مجھے خبر دیں (فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا)(الذاریات:۴)کے بارے میں تو آپ نے کہا :فرشتے مراد