کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 59
سوال کرنے لگا تو انہوں نے کہا۔’’اے جعد تو ہلاک ہوجائے اس مسئلہ کو پکڑنے کی وجہ سے اور میں تجھے ہلاک ہونے والوں سے گمان کرتا ہوں ۔ اے جعد ! اگر اللہ تعالیٰ ہمیں یہ خبر نہ دیتا کہ اس کا ہاتھ، آنکھ، اور چہرہ ہے ۔ تو ہم بھی یہ بات نہ کرتے۔ پس تو اللہ سے ڈرجا۔ پھر جعد بہت لمبی دیر نہیں ٹھہرا مگر صولی دے کر قتل کردیا گیا۔[1] ۳۷: اور خالد بن عبد اللہ القسری نے قربانی کے دن بصرہ میں خطبہ دیا ۔ اور خطبہ کے آخر میں فرمایا کہ ’’تم اپنے گھروں کو چلے جاؤ اور قربانیاں کرو۔میں جعد بن درھم کی قربانی کروں گا۔ وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ نہیں بنایا اور نہ ہی موسیٰ علیہ السلام سے کلام کی ہے۔یقیناً جعد نے بہت بڑی بات کہی ہے اور پھر منبر سے نیچے اتر آئے اور اس کواپنے ہاتھ سے ذبح کردیا اور حکم دیا کہ اس کو سولی پر لٹکادیا جائے۔(27) ............................................................................... (27)ضعیف۔ خلق افعال العباد للبخاری:(۳)، التاریخ الکبیر: (۱؍ ۶۴)امام ذھبی فرماتے ہیں کہ یہ قصہ بہت مشہور ہے ۔ میزان الاعتدال: (۱؍۳۹۹)الرد علی الجہمیۃ:( رقم:۱۳،۳۸۸)،الشریعۃ للآجری :(ص:۹۷،۳۲۷دوسرا نسخہ ص:۲۴۷ رقم:۷۳۸)،السنن الکبری للبیہقی : (۱۰؍۲۰۵دوسرا نسخہ:۱۰؍۳۸۵ رقم:۲۰۸۸۷)،اس کی سند میں عبدالرحمن اور اس کا باپ مجہول ہے اور اس دادا ضعیف یکتب حدیثہ ہے ،الاسماء والصفات للبیہقی:( ص:۲۵۳)۔اس کی سند میں محمد بن حبیب راوی مجہول ہے ۔میزان الاعتدال :(۶؍۱۰۱ رقم:۷۳۵۶،الجرح والتعدیل :۷؍۱۲۴۶) ۔ اور اس کا بیٹا عبدالرحمن مقبول ہے ۔میزان الاعتدال :(۴؍۳۱۲ رقم:۴۹۵۵)،التقریب:(۳۹۹۸)
[1] البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر :(۹/۳۵۰)،اس کی سند میں یونس بن عبدالصمدہے اس راوی پر جرح وتعدیل معلوم نہیں ہو سکی۔دیکھیں ۔ الجرح و التعدیل :(۹/۲۴۱)