کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 53
گیااور ان کو کہا گیا کہ استوی علی العرش کا کیا معنی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں غیب کی خبروں کو نہیں جانتا مگر اتنی مقدار کے جتنی ہم پر واضح کردی گئی ہیں اور یقیناً ہم جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ عرش پر بلند ہے اور اس نے ہمیں یہ خبر نہیں دی کہ وہ کیسے بلند ہے؟ ۲۸: ہمیں خبر دی ابو عبد اللہ الحافظ نے، ان کو ابوبکر محمد بن داود الزاھدنے، ان کو محمد بن عبد الرحمن السامی نے ، ان کو عبد اللہ بن أحمد بن شبویہ المروزی نے بیان کیا ، وہ کہتے ہیں میں نے علی بن حسن بن شقیق کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عبد اللہ بن مبارک سے سنا ہے وہ کہہ رہے تھے:" نعرف ربنا فوق سبع سموات علی العرش استوی بائنا منہ خلقہ، ولا نقول کما قالت الجہمیۃ إنہ ہا ہنا وأشار إلی الأرض. کہ’’ہم اپنے رب کو ساتوں آسمانوں کے اوپر پہچانتے ہیں کہ وہ عرش پر مستوی ہے ۔اس سے اس کی مخلوق الگ ہے اور ہم جھمیہ کی طرح نہیں کہتے کہ وہ یہاں ہے اور انہوں نے زمین کی طرف اشارہ کیا ۔‘‘[1]
[1] صحیح الی ابن المبارک ۔ السنۃ لعبد اللّٰہ بن احمد:(۱/۱۱۱رقم:۲۲،۱/۱۷۵رقم:۲۱۶)الرد علی الجھمیۃ لابی سعید الدارمی :(۶۷‘۱۶۲)خلق افعال العباد للبخاری:(ص:۸رقم:۱۳)الرد علی المریسی :(ص:۱۰۳)الشرح والابانۃ لابن بطۃ:(ص:۲۲۲)الاسماء والصفات للبیہقی: (ص:۴۲۷،۵۳۸)اس کو امام ابن تیمیہ ،الحمویۃ:( ص:۴۱)اور ابن قیم، اجتماع الجیوش الاسلامیۃ :(ص:۸۴)نے صحیح کہا ہے اور یہی بات امام احمد بن حنبل سے پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں بھی یہی کہتا ہوں ۔(روی عنہ تلمیذہ ابوبکر الاثرم )فتاوی ابن تیمیہ: (۵/۵۲)اثبات صفۃ العلو لابن قدامہ (ص:۱۰۰رقم:۹۹)العلو للذھبی:(۱۱۰)