کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 52
پھر کچھ دیر بعد ان سے غصہ اور پسینہ ختم ہوا تو انہوں نے فرمایا۔’’کیفیت مجھول ہے اور استواء معلوم ہے اور ا س پر ایمان لانا واجب ہے اور استواء کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اور یقیناً میں ڈرتا ہوں کہ تو گمراہ ہوجائے گا پھر اس کے بارے میں حکم دیا گیا پس اس کو مجلس سے نکال دیا گیا ۔[1] ۲۶: اور مجھ کو اس کی خبر میرے دادا ابو حامد احمد بن اسماعیل نے دی ، وہ میرے والد کے دادا شھید سے روایت کرتے ہیں ‘اور وہ ابو عبد اللہ محمد بن عدی بن حمدویہ الصابونی ہیں ۔ہمیں محمدبن احمد بن ابی عون نے بیان کیا ،ان کو سلمہ بن شبیب نے ،ان کو مھدی بن جعفر الرملی نے ،ان کو جعفر بن عبداللہ نے بیان کیا کہ ایک آدمی امام مالک بن انس کی خدمت میں آیا ،اس نے آکر کہا :اے ابوعبداللہ ! الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى۔(طہ:۵)اس فرمان میں استوی کیسے ہے ؟راوی کہتے ہیں کہ امام مالک اس کی بات سن کرسخت رنجیدہ خاطر ہوئے ہم نے ان کو اتنے غصے میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھاانھوں نے آگے اوپر والی بات کو تفصیل سے بیان کیا ۔ ۲۷: اور ابو علی الحسین بن الفضل الجبلی سے استواء کے بارے میں سوال کیا
[1] اسنادہ حسن : الرد علی الجھمیۃ للدارمی :(۱۰۴)الحلیۃ لابی نعیم:(۶/۳۲۶، ۳۲۵)الاسماء والصفات للبیہقی: (۸۶۶،۸۶۷)شرح الاعتقاد للالکائی :(۶۶۴)حافظ ذہبی نے کہا کہ یہ امام مالک سے ثابت ہے ۔العلو:( ۱۰۴)اورحافظ ابن حجر نے اس کی سند کو عمدہ کہا ہے۔فتح الباری :(۱۳/۵۰۰ ط :دارالسلام)