کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 51
۲۵: ہمیں ابو محمد المخلدی العدل نے خبر دی ، اس کو ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن مسلم الاسفر ائینی نے بیان کیا، اس کو ابو الحسن علی بن الحسن نے ، ان کو سلمۃ بن شبیب نے ، ان کو مھدی بن جعفر بن میمون الرملی نے ، ان کو جعفر بن عبد اللہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی مالک بن انس کے پاس آیا،وہ ان سے اس آیت کے بارے میں سوال کرنے لگا ’’(الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى)[طہ:۵](24) استوٰٰ ی کیسے ہے؟ جعفر بن عبد اللہ کہتے ہیں میں نے ان کو اتنی غضبناک حالت میں دیکھا جتنی غضبناک حالت میں وہ کبھی بھی نہیں دیکھے گئے تھے انھیں پسینہ آگیا اور لوگ گردنوں کو بلند کرنے لگے پس وہ حکم کا انتظار کرنے لگے اس معاملے کے بارے میں .................................................................................... (24)امام ابوالحسن اشعری معتزلہ ،جہمیہ اور حروریہ کے استوی علی العرش کے متعلق نظریات کا دندان شکن رد کرتے ہوئے اپنے دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ان تمام دلائل سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں میں اپنے عرش پر مستوی ہے اورآسمان کے متعلق لوگوں کا اجماع ہے کہ وہ زمین نہیں ہے لہذا یہ بات بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی وحدانیت میں یکتا اورعرش پر مستوی ہے ۔الابانہ عن اصول الدیانۃ :(۱۲۴)الحمدللّٰہ ہم( الابانہ عن اصول الدیانہ ) ترجمہ ،شرح اور تخریج و تحقیق کے ساتھ عن قریب شایع کررہے ہیں ۔ امام ابن تیمیہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس صفت کو اپنی کتاب میں سات مقامات پر ذکر کیا ہے لہذا ہم بھی اللہ کے لیے اسے ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقت میں اپنے عرش پر بلند ہوا جو اس کے شایان شان ہے چنانچہ استوا معلوم ہے ،کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اہل سنت وجماعت کا یہی عقیدہ ہے۔[1]
[1] مجموع الفتاوی :(۵/۱۴۴)نیز دیکھیں فتح الباری:(۱۳/۵۰۰۔۵۰۱)