کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 50
اس کا اقرار کرنا ایمان ہے اور انکار کرنا کفر ہے ‘‘(23) ۲۴: اور ہمیں بیان کیا ابو الحسن بن اسحاق المز کی بن المز کی نے ، ان کو احمد بن الخضر ابو الحسن الشافعی نے، ان کو شاذان نے، ان کو ابن مخلد بن یزید القُھستانی نے اور ان کو جعفر بن میمون نے بیان کیا ، وہ کہتے ہیں کہ سیدنا مالک بن انس رضی اللہ عنہ سے اللہ سبحانہ کے اس قول (الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى)[طہ:۵] کے بارے میں سوال کیا گیا کہ استوی کیسے ہے ؟تو انہوں نے کہا: (الاستواء غیر مجہول، والکیف غیر معقول والإیمان بہ واجب والسؤال عنہ بدعۃ وما أراک إلا ضالا وأمر بہ أن یخرج من مجلسہ’’استواء معلوم ہے اس کی کیفیت مجھول ہے اور اس کے ساتھ ایمان لانا واجب اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔(امام مالک نے سائل سے کہا ) اور میں تجھ کو گمراہ سمجھتا ہوں اور اس کے بارے میں حکم دیا کہ اس کو مجلس سے نکال دیا جائے۔[1] .................................................................................. (23)ضعیف :لالکلائی (۶۶۳)‘العلو للذھبی: (ص۶۵)، العلولا بن قدامۃ: (۸۲) اس میں محمد بن اشرس الوراق راوی متروک اور ابو المغیرہ عمیر بن عبد المجید ضعیف ہیں اور حسن کی والدہ مجھول ہے۔فتح الباری:(۱۳؍۴۰۶)امام ابن تیمیہ نے اس کی سند کو غیر معتمد کہا ہے ۔مجموع الفتاوی :(۵؍۳۶۵)امام ذہبی فرماتے ہیں کہ یہ قول ایک جماعت سے منقول کیا گیا ہے مثلا ربیعہ، مالک الامام اور ابو جعفر الترمذی وغیرہ سے لیکن سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس کا منقول ہونا صحیح نہیں ہے۔[2]
[1] صحیح الی مالک ۔شرح اصول الاعتقاد رقم:(۶۶۴،۳/۴۴۱)،فتح الباری:(۱۳/۴۰۶) [2] العلو :(ص۶۵)