کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 48
سورۃ سجدہ میں دوسرے مقام پر ’’وہی آسمان سے زمین تک (سارے)معاملے کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ(معاملہ) اس کی طرف چڑھ جاتا ہے۔[السجدہ:۵] اور فرمایا’’کیاتم بے خوف ہوگئے ہو اس سے جو آسمان میں ہے کہ وہ تم کو زمین کے اندر دھنسا دے ‘‘ [الملک:۱۶] ۲۰: اور اللہ تعالیٰ نے فرعون لعین کے بارے میں خبر دی ہے کہ جب اس نے ھامان کو کہا ’’تو میرے لیے ایک اونچا محل بنادے تاکہ میں اسباب تک پہنچوں (یعنی آسمان کے راستوں تک)پھر میں موسی علیہ السلام کے معبود کی طرف جھانکوں بے شک میں تو اسے جھوٹا خیال کرتا ہوں ۔ [غافر:۳۶۔۳۷] ۲۱: اور اس نے یہ اس لیے کہا تھا کیونکہ اس نے موسی سے اس بات کو سنا تھا کہ اس کارب آسمان میں ہے ۔کیا آپ اس کے اس قول پر غور نہیں کرتے ہیں ’’میں توا س کو جھوٹا گمان کرتا ہوں ‘‘[غافر:۳۷] وہ مراد لے رہا ہے کہ موسی علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میرا رب آسمان میں ہے اس کی اس بات میں مَیں اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں ۔(22) ................................................................................ (22)اس کی دلیل سورۃ الانعام :۶۱ بھی ہے :( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً)اور وہی اپنے بندوں کے اوپر غالب ہے اور نگہداشت رکھنے والے (محافظ فرشتے)بھیجتا ہے ۔‘‘امام ابوالقاسم لالکائی فرماتے ہیں :یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے اور اس کا علم زمین و آسمان کی ہر جگہ کو گھیرے ہوئے ہے ۔یہ بات صحابہ میں سے سیدنا عمر ،سیدنا ابن مسعود،سیدنا ابن عباس،اورسیدنا ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی گئی ہے ۔اورتابعین میں سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمن ،سلیمان تیمی ،اور مقاتل بن حیان سے نقل کی گئی ہے ،نیز فقہاء میں سے مالک بن انس ،سفیان ثوری اور احمد بن حنبل اسی کے قائل ہیں ۔[1]
[1] شرح اصول اعتقاد اہل السنہ :(۳/۴۳۰)