کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 47
اور سورہ رعد میں ہے(اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ) [الرعد:۲]کہ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے کہ تم انہیں دیکھ رہے ہو پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔ اور سورۃ فرقان میں اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں (ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ الرَّحْمَنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا) [الفرقان:۵۹]کہ پھر رحمن عرش پر مستوی ہوگیا تو سوال کر اسکے بارے میں کسی خبر رکھنے والے سے‘‘ اور سورۃ سجدہ میں ہے (ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ) [السجدہ:۴] ’’پھر وہ بلند ہوا عرش پر‘‘ اورسورہ طہ میں فرمایا (الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى) [طہ:۵] رحمان عرش پر مستوی ہوا ۔ نیز فرمایا :( اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ) [السجدہ:۴]کہ اللہ وہ ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پربلند ہوا۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے’’اسی کی طرف اچھے کلمات چڑھتے ہیں ‘‘[فاطر:۱۰](21)[1] ...................................................................................... (21)علو یعنی بلندی اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ مطلق بلندی سے متصف ہے جس میں ذات کی بلندی ،قدر کی بلندی،اور قہر و غلبہ کی بلندی شامل ہے۔
[1] الروضۃ الندیۃ شرح العقیدۃ الواسطیۃ :(ص:۱۳۱)