کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 46
باب :۵ اللہ تعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہونا۔ ۱۹: اصحاب الحدیث یہ عقیدہ رکھتے ہیں اور گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر ہے ۔(20)جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ارشاد فرمایا ہے (إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مَا مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ) [یونس:۳] ’’یقیناً تمہارا رب وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ اپنے عرش پر مستوی ہوگیا ۔وہ معاملے کی تدبیر کرتا ہے نہیں ہے کوئی سفارشی جو اس کی اجازت کے بغیر سفار ش کرے‘‘ ........................................................................................... (20)امام عثمان بن سعید الدارمی فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر (مستوی)ہے ۔[1] اسی طرح انہوں نے کہا کہ جو کہے کہ وہ نہیں مانتاکہ اللہ تعالیٰ اپنے آسمان اور عرش کے اوپر ہے تو وہ غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے ۔[2] احناف کی مخالفت کرتے ہوئے عبدالحیء حنفی لکھتے ہیں کہ قد اتفقت الکلمۃ من المسلمین ان اللّٰہ تعالیٰ فوق عرشہ وعرشہ فوق سمواتہ ۔مسلمانوں کا یہ کلام متفق علیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ہے اور اس کا عرش آسمانوں پر ہے ۔[3] نیز لکھتے ہیں کہ صحابہ اور تابعین نے اس بات پر اجماع کر لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے اور مخلوق سے بہت دور ہے ۔[4]
[1] الاربعین:( ص:۴۳،رقم:۱۷) [2] الرد علی بشر المریسی:( ص:۷۵) [3] مجموعہ فتاوی عبدالحیء لکھنوی:( ص:۴۴) [4] مجموعہ فتاوی عبدالحیء لکھنوی :( ص:۴۶)نیز دیکھیں ہماری مطبوعہ کتب شرح رسالہ نجاتیہ :(۴۹۔۵۱)،شرح اصول السنہ للحمیدی:( ص:۶۸۔۷۱)