کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 34
................................................................................................................... للبیہقی :(۱۴۷)،فردوس للدیلمی :(۳؍۴۲۱)،مسند الشامیین للطبرانی :(۵۲۱)،العلل المتناہیۃ لابن الجوزی :(۳۲)،المعجم الاوسط للطبرانی :(۶۱۷۳)۔ عبدربہ بن صالح القرشی مجہو ل ہے علاوہ ازیخ معجم الاوسط للطبرانی کی سند میں طلحہ بن زید راوی متروک ہے ،حافط ذھبی نے اس کو کذاب کہا ہے اور طبرانی کبیر کی سند میں ابراہیم بن عبداللہ بن خالد المصیس ہے جس کو حافظ ذ ھبی نے کذاب و متروک کہا ہے دیکھئے (مجمع الزوائد :۱؍۱۰۷ رقم:۲۶۰)اس وجہ سے یہ روایت سخت ضعیف بلکہ موضوع ہے ۔اور یہ روایت موقوفا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے حسن سند سے ثابت ہے (الرد علی بشر المریسی للدارمی :۴۰،العلو:۱۵۷،حافظ ذہبی نے کہا :اسنادہ صالح اور ابن قیم نے بھی اس کو اسنادہ صحیح کہا ہے) تنبیہ :امام صابونی نے اس حدیث کا متن مختصر بیان کیا تھا جب ہم نے اصل کتب کی طرف مراجعت کی تو اس کا حدیث قدسی ہونا ہم پر واضح ہوا۔والحمدللہ (11)ضعیف مرفوعا و صحیح موقوفا ۔ الاسماء والصفات للبیہقی: (ص۴۰۳،دوسرا نسخہ:۲؍۴۸) ،الصفات للدرقطنی:( ۲۸)،صفۃ الجنۃ لابن ابی الدنیا: (۴۱) العظمۃ لابی شیخ: (۱۰۱۷) صفۃ الجنۃ لابی نعیم :(۲۳)اس کی سند میں عون بن عبداللہ کے بار میں جرح و تعدیل کا ذکر نہیں ملتا اس طرح کا راوی مجھول ہوتا ہے اس کی روایت ضعیف ہوتی ہے ۔امام بیہقی نے اس روایت کو مرسل کہا ہے ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار چیزوں کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا عرش،قلم،آدم اور جنت عدن پھر تمام چیزوں کو پیدا کرتے وقت کن کہا وہ چیزیں پیدا ہو گئیں ۔[1] ،امام حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے حافظ ذھبی نے اس کی سند کو تلخیص المستدرک میں ’’صحیح‘‘ اور (العلو:۱۶۹)میں ’’اسنادہ جید ‘‘کہا ہے ۔شیخ البانی نے بھی اس کو’’ اسنادہ صحیح علی شرط مسلم‘‘ کہا ہے ۔[2]
[1] مستدرک حاکم :(۲/۳۴۹،رقم:۳۲۴۴) [2] مختصر العلو:( ص۱۰۵) ۔