کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 123
۱۳۳: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکررضی اللہ عنہ کی زندگی میں ہی ان کی شان میں باتیں کرتے تھے ۔جس چیز نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لے اس بات کو واضح کر دیا کہ آپ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں ۔[1] ۱۳۴: اس وجہ سے صحابہ نے ان پر اتفاق کیا ،ان پرجمع ہوگئے اور ان کے اس مرتبے سے فائدہ اٹھایا ہے،اللہ کی قسم !،صحابہ کرام ان کی وجہ سے بلند ہوئے ہیں ،اورانھوں نے فائدہ اٹھایا،اور عزت حاصل کی اوران کی وجہ سے غالب آئے ، یہاں تک کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم!جس کے علاوہ کوئی الہ نہیں ہے اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نہ بنایا جاتا تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی اور جس وقت کہا گیا :اے ابوہریرہ !ٹھہر جاؤ،یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟تو وہ دلیل لے کر کھڑے ہوئے تو صحابہ کرام نے ان کی بات کی تصدیق کی اور اس کا اقرار کیا ۔[2] پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت ہے اوران کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ نامزد کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد ان پر اتفاق کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کو ان کے ذریعے اسلام کو بلند کرنے اور اس کی شان کو بڑھانے میں پورا کیا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت اہل شوری کے اجماع اور اتفاق کے
[1] تفصیل کے لیے دیکھیں :منھاج السنۃ لابن تیمیہ:(۱/۳۴۰۔۳۶۴)،الاعتقاد للبیہقی:(ص:۳۳۷)،شرح عقیدہ طحاویہ : (ص:۴۷۱۔۴۷۶)،تاریخ الخلفاء للسیوطی:(ص:۸۱۔۸۷) [2] ضعیف۔ تاریخ دمشق:(۳۰/۲۷۰)،تاریخ الخلفاء للسیوطی:(ص:۹۴)،اس کی سند میں عباد بن کثیر الثقفی متروک ہے۔ التقریب: (۳۱۳۹)