کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 117
کشتی ،وہ مساکین کے لیے تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے پس میں نے اس کو عیب زدہ کرنے کا ارادہ کیا ۔‘‘[الکھف:۸۰] اور جب خضر علیہ السلام نے خیر ،نیکی اور رحمت کا ذکر کیا ہے تو اس کے ارادے کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ)پس تیرے رب نے اس با ت کا ارادہ کیا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنے خزانے کو نکال لیں ،یہ تیرے رب کی طرف سے رحمت ہے[الکھف:۸۳] اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں خبر دیتے ہوئے کہا:( وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ):’’اور جب میں بیمار ہوتا ہوں پس وہی مجھ کو شفادیتا ہے ۔[الشعراء:۸]پس انہوں نے مرض کو اپنے نفس کی طرف اور شفا کو اپنے رب کی طرف منسوب کیا ہے، اگرچہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ باب:۱۵ اللہ تعالیٰ کی مشیئت : ۱۲۴: اور اسی طرح اہل سنت وجماعت کا مذہب ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے تمام اعمال کا ارادہ کرنے والاہے، چاہے وہ اچھے ہوں یا برے ۔کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتا مگر اس کی مشیئت کے ساتھ(57) اور نہ کسی نے کفر کیا ہے مگر اس کی مشیئت کے ساتھ اور اگرا للہ تعالیٰ چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو زمین میں بسنے والے تمام کے تمام لوگ ایمان لے آتے۔‘‘[یونس:۹۹] ....................................................................................................... (57)اللہ تعالیٰ کی توفیق و مدد سے ہم نے اپنی کتاب (شرح رسالہ نجاتیہ ص:۶۶۔۶۷)میں اس مسئلے پر مفصل بحث کر دی ہے ۔