کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 116
۱۲۳: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :( وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ)کہ اور اگر وہ تجھ کو کوئی تکلیف پہنچائے پس اس کو اس کے سوا کوئی کھولنے والا نہیں ہے اگر وہ تیرے ساتھ خیر کا ارادہ فرمائے تو اس کے فضل کو کوئی لوٹانے والا نہیں ہے ۔[یونس:۱۰۷] اہل سنت کاموقف ہے اور ان کا طریقہ ہے باوجودان کے اس قول کے کہ :’’بے شک خیر اور شر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے ساتھ ہے ۔‘‘یہ کہ اللہ کی طرف ان چیزوں کو منسوب نہیں کیا جائے گا، جس میں انفرادی طور پر نقص لازم آتا ہو ۔پس کہا جائے کہ اے بندروں ، خنزیروں ،گوریلا ،اور کالے کیڑے کے خالق ۔اگرچہ وہ مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے۔ اور اس بارے میں رسول اللہ کا فرمان بھی نماز کو شروع کرنے والی دعا میں وارد ہوا ہے :" تبارکت وتعالیت، والخیر فی یدیک، والشر لیس إلیک " ’’تو بلند اور بابرکت ہے اور خیر تیرے ہاتھ ہی میں ہے اور شر تیری طرف نہیں ہے ۔[1] اور اس کے معنی ۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ اور شر ان چیزوں میں سے نہیں ہے جن کو مفرد اور قصداتیری طرف منسوب کیا جائے، یہاں تک تیرے لیے پکارتے وقت کہنا :اے شر کے خالق یا شرکو مقدر کرنے والے اگرچہ وہی خالق ہے اور ان دونوں کو مقدر کرنے والا ہے اسی وجہ سے خضر علیہ السلام نے عیب کے ارادے کو اپنے نفس کی طرف منسوب کیا ہے۔ پس انہوں نے کہا :جس طرح اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے ۔( أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَهَا)‘‘رہی
[1] صحیح مسلم: (۷۷۱)