کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 108
فوت ہوا ہو۔اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے ،اگر وہ چاہے تو اسے معاف کر دے اور روزقیامت جنت میں صحیح سلامت ،آگ میں مبتلا کیے بغیر ،گناہوں کا احتساب کیے بغیر، اس کو جنت میں داخل کر دے، پھر گناہوں کابوجھ رو زقیامت اس کا ساتھی ہوگا۔ اور اگر چاہے تو سزا دے اور ایک مدت تک اس کو آگ کا عذاب دے تو ہمیشہ کے لیے اسے عذاب میں نہیں رکھے گا بلکہ (اس کے گناہ کی سزا کے بعد)اس کو جنت کی طرف نکال دے گا۔ ۱۱۴: اور ہمارے شیخ ابو طیب سہل بن محمد الصعلوکی فرماتے تھے: المؤمن المذنب وإن عذب بالنار فإنہ لا یلقی فیہا إلقاء الکفار، ولا یبقی فیہا بقاء الکفار، ولا یشقی فیہا شقاء الکفار. ومعنی ذلک أن الکافر یسحب علی وجہہ إلی النار، ویلقی فیہا منکوسا فی السلاسل والأغلال والأنکال الثقال، والمؤمن المذنب إذا ابتلی فی النار فإنہ یدخل النار کما یدخل المجرم فی الدنیا السجن علی الرجل من غیر إلقاء وتنکیس. کہ گناہ گار مومن کو اگرچہ جہنم میں آگ کا عذاب دیا جائے گا لیکن اسے جہنم میں کافر کی طرح نہیں پھینکا جائے گا اور نہ ہی وہ آگ میں کافروں کی طرح ہمیشہ رہے گا اور نہ ہی کافروں کے بدبخت ہونے کی طرح بدبخت ہو گا۔اس کا مطلب ہے کہ کافر کے چہرے کو آگ پرپیش کیا جائے گا اور اسے اوندھے منہ اور بھاری زنجیروں میں جھکڑکر پھینکا جائے گا اور گناہ گار مومن آگ میں آزمایا جائے گا بے شک وہ آگ میں اس طرح داخل ہوتا ہے جیسے دنیا میں مجرم جیل میں قدموں پر چل کر جیل میں بغیر بے عزتی اور بغیر پھینکے جانے کے داخل ہو گا ۔