کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 106
۱۱۱: اور میں نے حاکم سے سنا وہ کہتے ہیں : میں نے ابوجعفر محمد بن صالح بن ھانی سے سنا وہ کہتے ہیں : میں نے ابوبکر محمدبن شعیب سے سنا وہ کہتے ہیں : میں نے اسحاق بن ابراہیم الحنظلی سے سنا وہ کہتے ہیں ابن مبارک ریّ(۱)آئے تو ان کی طرف ایک آدمی کھڑا ہو ا۔میرا گمان یہ ہے کہ وہ خوارج (53) میں سے تھا ۔اس نے ابن مبارک سے کہا :اے ابوعبدالرحمن !آپ کا اس انسان کے بارے میں کیا خیال ہے جو زنا،چوری کرتا ہو اور شراب پیتا ہو ؟تو انہوں نے کہا :میں اس کو ایمان سے نہیں نکالتا ۔اس نے کہا: اے ابوعبدالرحمن !بڑھاپے میں تو مرجی(54) ہو گیا ہے ۔ ................................................................................. (۱)یہ بہت بڑا شہر ہے اور اس میں بے شمار قسم کے پھل پائے جاتے ہیں نیز اس کی طرف بہت کبار علماء کی نسبت ہے مثلا :ابوبکر محمدبن زکریا الرازی ،محمدبن عمر بن ھشام ابوبکر الرازی،ابن ابی حاتم الرازی ان کے علاوہ اور بہت سارے علماء کرام۔ اس شہرکو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عمرو بن زید الخیل الطائی کی زیر قیادت ۲۰ھ میں فتح کیا گیا تھا ۔[1] (53)یہ وہ فرقہ ہے جو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے خلاف نکلا تھا ،اور یہ کبیرہ گناہ کرنے والے کو کافر قرار دیتے تھے اور سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنھما کو کافرکہتے تھے ۔یہ ستائیس فرقوں میں تقسیم ہوگئے ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں :الحروریہ ،اشداہ،النواصب،المارقۃ۔[2] (54)ان کی تین قسمیں ہیں ،یہ خوارج کے بعد شروع ہوئے یہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی تکفیر نہیں کرتے یہ ہر معاملے کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں اور ایمان کی موجودگی میں گناہ کو برا نہیں سمجھتے ،ان کا نظریہ ہے کہ ایمان کے ساتھ گناہ نقصان نہیں دیتا،حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ان کے نزدیک ایمان صرف دل سے یقین کرنا ہے۔اوران کا خیال ہے جہنم میں صرف کافر لوگ ہی داخل ہوں گے۔یہ سب کے ایمان کو ایک جیسا ہی خیال کرتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا ایمان ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما جیسا ہے۔
[1] معجم البلدان :(۳/۱۱۶۔۱۲۲) [2] الملل والنحل :(۱/۱۳۳)، مقالات الاسلامیین:(۱/۱۶۷)