کتاب: عقیدہ الاسلاف اور اصحاب الحدیث - صفحہ 104
بن عمرو بن عثمان سے سوال کیا تو انھوں نے قول اور عمل کہا ۔میں نے محمد بن عبداللہ بن عمر و بن عثمان سے سوال کیاتو انھوں نے قول اور عمل کہا ۔میں نے محمد بن مسلم الطائفی سے سوال کیا تو انھوں نے قول اور عمل کہا ۔میں نے فضیل بن عیاض سے سوال کیا توانھوں نے قول اور عمل کہا۔ میں نے نافع بن عمر الجمحی سے سوال کیا تو انھوں اس نے قول اور عمل کہا اور میں نے سفیان بن عیینہ سے سوال کیا تو انہوں نے بھی قول اور عمل کو ایمان قرار دیا ۔[1] ۱۰۶: اور ہم کو ابو عمرو الحیری نے خبر دی ،ان کو محمد بن یحیی اور محمد بن ادریس نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ میں نے حمیدی سے سنا ،وہ کہتے ہیں میں نے سفیان بن عیینہ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ ایمان قول اور عمل کا نام ہے ،زیادہ اور کم ہوتا ہے پس اس کو اس کے بھائی ابراہیم بن عیینہ نے کہا :اے ابومحمد ! تو کہتا ہے کہ ایمان کم بھی ہوتا ہے ؟تو انہوں نے کہا کہ اے بچے! خاموش ہو جا بلکہ کم ہوتا ہے یہاں تک کہ بالکل ختم ہو جاتاہے۔ [2] (53) .................................................................................. (53) ایمان کا کم اور زیادہ ہونا بہت اہم مسئلہ ہے اس مسئلے پرہم نے سیر حاصل بحث شرح رسالہ نجاتیہ :(ص:۸۵۔۸۶)اور شرح اصول السنۃ للحمیدی:( ص:۴۴۔۴۷) میں کردی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں بطور فائدہ عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الکھف کے نوجوانوں کے متعلق کہا کہ وہ نوجوان تھے جنہوں نے ایمان لایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کا ایمان بڑھایا ۔(الکھف:۱۳)اللہ تعالیٰ گمراہ فرقوں کو ہدایت عطافرمائے جیسے مرجئہ جو ایمان میں متساہل ہوئے اور خوارج جو ایمان کے مسئلے میں متشدد ہوئے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان فرقوں سے بچنے اور قرآن و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کی توفیق عطافرمائے۔
[1] اسنادہ حسن ۔الشریعہ للآجری :(۲۴۲،دوسرا نسخہ ص:۱۰۷،رقم:۲۸۲۔۲۸۶) [2] صحیح ۔الشریعۃ للآجری :(۲۳۲،دوسرا نسخہ ص:۸۴ رقم:۲۶۸)،الابانۃ الکبری لابن بطۃ :(۸۱۷)