کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 95
رکھ دیا جاتا ہے)۔‘‘ (متفق علیہ) [1]
اپنے دست نگروں پر بساط بھر خرچ کرو اور اعتدال سے کام لو:
ارشاد باری ’’احسنوا‘‘ میں رب تعالیٰ نے ہر چیز پر عام احسان کرنے کا حکم دیا۔ خصوصاً جن لوگوں (کا خرچ بندے کے ذمہ ہے اور ان) پر خرچ کرنے کا حکم ہے (ان پر
خوب احسان کرو) اور نفقہ میں احسان یہ ہے کہ ان پر خرچ کیا جائے، ان سے مال کو روک کر نہ رکھا جائے اور خرچ میں میانہ روی ہو کہ نہ بالکل ہاتھ کھینچ کر رکھو اور نہ ہی بے محابا خرچ کرو (اور ان پر بے سوچے سمجھے مال اڑاتے جاؤ)، اور یہی وہ ’’قَوَام‘‘ ہے جس کا رب تعالیٰ نے سورۂ فرقان (کی اس آیت) میں حکم دیا ہے۔ (چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ اِِذَآ اَنفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا﴾ (الفرقان: ۶۷)
’’اور جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ بلکہ ’’قَوَام‘‘ یعنی اعتدال سے کام لیتے ہیں نہ ضرورت سے زیادہ اور نہ کم۔‘‘)
ہر کام میں احسان سے کام لو:
صحیح مسلم میں حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رب تعالیٰ نے ہر شے پر احسان کرنے کو فرض کر دیا ہے پس جب تم (کسی موذی جانور، سانپ، بچھو وغیرہ کو) قتل کرنے لگو تو (اس کو) قتل کرنے میں بھی احسان سے کام لو (کہ تڑپا تڑپا کر یا جلا کر قتل نہ کرو) اور جب تم (کسی حلال جانور کو) ذبح کرنے لگو تو ذبح کرنے میں بھی احسان سے کام لو۔ لہٰذا تم میں سے ایک اپنی چھری کو تیز رکھے اور اپنے ذبیحہ کو راحت دے۔‘‘ (کہ چھری کی دھار کند نہ ہو کہ جان نکلنے میں اسے شدید اذیت ہو)۔‘‘ [2]
احسان کرنا رب تعالیٰ کو محبوب ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ احسان کے امر کی علت کا بیان ہے کہ جب بندوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ (خلقِ اللہ پر) احسان کرنا رب تعالیٰ کی محبت کا موجب
[1] البخاری: کتاب التوحید، باب کلام الرب مع جبریل و نداء اللّٰہ الملائکۃ، حدیث، رقم: ۷۴۵۷۔
[2] مسلم: کتاب الصید باب الامر باحسان الذبیح والقتل وتحدید الشفرۃ، حدیث رقم: ۱۹۵۵۔