کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 93
یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ﴾ (البقرۃ: ۲۲۲)۔)) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور نیکی کرو بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ اور فرمایا:’’اور انصاف سے کام لو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ’’پس اگر وہ (اپنے عہد پر) قائم رہیں تو تم بھی (اپنے قول و قرار پر) قائم رہو۔ بے شک اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ’’کچھ شک نہیں کہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ _________________________________________________ شرح:… صفتِ محبت رب تعالیٰ کے لیے ثابت ہے: یہ مذکورہ آیات رب تعالیٰ کے چند افعال (کے ثبوت) کو متضمن ہیں جو اس کی صفتِ محبت سے پیدا ہوتے ہیں ۔ رب تعالیٰ کی بعض اشخاص، اعمال اور اخلاق کے ساتھ محبت اس کی وہ صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور یہ ان افعالِ اختیار یہ کی صفات میں سے ہے جن کا تعلق اس کی مشیئت سے ہے۔ رب تعالیٰ کا بعض اشیاء سے محبت کرنا اور بعض سے نہ کرنا اس کی حکمتِ بالغہ کا مقتضیٰ ہے: چناں چہ رب تعالیٰ کا بعض اشیاء سے محبت کرنا اور بعض سے نہ کرنا اس کی حکمتِ بالغہ کا مقتضی ہے۔ اشاعرہ اور معتزلہ کا صفتِ محبت سے انکار اور اس کی دلیل اور ان کی دلیل کا ردّ: اشاعرہ اور معتزلہ رب تعالیٰ کی صفتِ محبت کا انکار کرتے ہیں اور (اس انکار کی دلیل میں مبنی برحق ہونے کی بابت) ان کا دعویٰ یہ ہے کہ محبت ’’نقص‘‘ اور کمی کا وہم ڈالتی ہے۔ کیوں کہ مخلوق میں محبت کا مطلب اس کا (محبوب شے کی طرف) میلان کرنا اور اس سے لطف اندوز ہونا ہے۔ (ان کے دعویٰ کا تفصیلی بیان یہ ہے کہ) اشاعرہ محبت سے مراد رب تعالیٰ کی صفتِ ارادہ لیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ رب تعالیٰ کا اپنے بندوں سے محبت کرنے کا مطلب فقط ان کے اکرام کرنے اور ثواب دینے کا ارادہ کرنا ہے۔ یہی قول ان کا رب تعالیٰ کی دوسری صفات کے متعلق بھی ہے۔ جیسے رب تعالیٰ کا راضی ہونا، ناراض ہونا، ناپسند کرنا، غصہ کرنا اور غضب ناک ہونا وغیرہ کہ ان کے نزدیک ان صفات سے مراد فقط (بندوں کے لیے) ثواب و عقاب کا ارادہ کرنا ہے۔