کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 59
رب تعالیٰ کے حق میں ’’قیاس اَولی‘‘ کا استعمال جائز ہے:
رب تعالیٰ کے حق میں صرف ’’قیاس اَولی‘‘ کا استعمال ہی جائز ہے، جس کا مضمون یہ ہے کہ ہر وہ کمال جو مخلوق میں ثابت ہے (اور اس میں پایا جاتا ہے) اور اس کے ساتھ خالق کو موصوف کرنا بھی ممکن ہے تو خالق (اس کمال اور صفت میں ) مخلوق کے مقابلے میں زیادہ اولی (اہل، لائق اور سزاوار) ہوگا اور ہر وہ عیب جس سے مخلوق منزہ ہے تو خالق اس عیب سے بدرجہ اولیٰ منزہ (بے عیب اور پاک) ہوگا۔
قاعدۂ کمال کو بیان کرنا بھی ذاتِ الٰہی کے حق میں زیبا ہے:
اسی طرح قاعدۂ کمال بھی ہے جس کو رب تعالیٰ کے حق میں بیان کر سکتے ہیں ۔ فرض کیا دو آدمی ہیں جن میں سے ایک صفتِ کمال کے ساتھ موصوف ہے جب کہ دوسرے کا اس صفت سے متصف ہونا ہی ممتنع ہے (چہ جائیکہ وہ اس صفت میں درجہ کمال پر فائز ہو) تو (ظاہر ہے کہ) پہلا دوسرے سے زیادہ کامل ہوگا۔ پس اس صفت کا رب تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا واجب ہے جب تک اس صفت کا وجود کمال اور عدمِ وجود نقص اور عیب ہو۔
_________________________________________________
اصل متن :… ((فإنہ أعلم بنفسہ وبغیرہ وأصدق قیلَا وأحسن حدیثا من خلقہ، ثم رسلہ صادقون مصدقون بخلاف الذین یقولون علیہ مالا یعلمون۔))
’’کیوں کہ رب تعالیٰ خود اپنی ذات کے بارے میں بھی اور دوسروں کے بارے میں سب سے زیادہ جانتا ہے اور اپنی تمام مخلوق سے بڑھ کر بات میں سچا اور عمدہ ترین بات کرنے والا ہے، پھر اللہ کے پیغمبر ہیں جو سچے ہیں اور ان کا سچا ہونا بیان بھی کیا گیا ہے بخلاف ان لوگوں کے جو رب تعالیٰ کی ذات پر وہ بات کہتے ہیں جس کا انہیں علم نہیں ۔‘‘
_________________________________________________
شرح:…
اللہ سب سے بڑھ کر جاننے والا ہے:
’’فانہ اعلم‘‘ سے لے کر ’’صادقون مصدوقون‘‘ تک علامہ اسلاف کی بابت ان کے ایمان کے درست ہونے کی (دوسری) علت بیان کر رہے ہیں جو انہوں نے کتاب و سنت میں وارد رب تعالیٰ کی صفات کے بارے میں رکھا ہوا ہے۔ (لہٰذا ’’فانہ‘‘ میں ’’فا‘‘ تعلیلیہ کہلائے گی) کیوں