کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 58
ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۲۲)
’’پس کسی کو اللہ کا ہم سر نہ بناؤ اور تم جانتے تو ہو۔‘‘
رب تعالیٰ کو اس کی مخلوق پر قیاس نہ کیا جائے ،نیز ناجائز مقاییس کی چند مثالیں :
اس سے مراد یہ ہے کہ قیاس کا کوئی ایسا صیغہ استعمال کرنا جائز نہیں جو امورِ الٰہیہ میں مقیس اور مقیس علیہ کے درمیان مماثلت اور مساوات کو مقتضی ہو۔ جیسے ’’قیاسِ تمثیل‘‘[1] جو علمائے اصول کے ہاں معروف ہے، اور یہ فرع کو اصل کے ساتھ ایسے میں ملانا ہے جو (دونوں کو) جامع ہو۔ جیسے (مثلاً تم نے دیکھا کہ شراب حرام ہے اور اس کی علت سوچنے پر یہ سمجھ میں آئی کہ اس میں نشہ ہے، اب تم نے یہی نشہ مثلاً نبیذ میں بھی دیکھ لیا تو تم نے اس کو بھی حرام قراردے دیا تو اب) نبیذ کو خمر کے ساتھ حرمت کے حکم میں ، دونوں کے حکم کی علت میں شریک ہونے کی وجہ سے جو نشہ ہے، ملانا (یہ قیاسِ تمثیل ہے، اس میں مقیس علیہ یعنی شراب اصل ہے اور مقیس یعنی نبیذ وہ فرع ہے) پس قیاسِ تمثیل یہ فرع اور اصل کے درمیان مماثلت کے پائے جانے پر مبنی ہے جب کہ رب تعالیٰ کی ذات کو اس کی مخلوق میں سے کسی کے مثل قرار دینا (ہرگز) جائز نہیں (تو ذاتِ الٰہی کے حق میں قیاسِ تمثیل بھی ہر گز جائز نہ ہوا)۔
جیسے قیاسِ شمول جو مناطقہ کے ہاں معروف ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ کلی کے ذریعے جزئی پر اس واسطے سے استدلال کیا جائے کہ یہ جزئی بھی دوسری جزئیات کی طرح (ہونے کی بنا پر) ان کے ساتھ اس کلی کے (حکم کے) تحت داخل ہے۔ چونکہ یہ قیاس ایک کلی کے تحت داخل تمام جزئیات کے افراد کے درمیان برابری اور مساوات کے حکم پر مبنی ہے اس لیے ہر جزئی پر دوسری جزئی کا حکم لگتا ہے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ میں اور اس کی مخلوق میں سے کسی بھی چیز میں کوئی مساوات اور برابری نہیں ۔ (اس لیے قیاسِ شمول کو بھی رب تعالیٰ کے حق میں استعمال کرنا ناجائز ہوگا)۔
[1] قیاسِ تمثیل یہ ہے کہ کسی خاص جزئی میں تم نے کوئی بات دیکھی پھر تم نے یہ سوچا اور علت تلاش کی کہ یہ بات اس خاص شے میں کیوں ہے اور سوچنے سے تم کو اس کی وجہ علت مل گئی۔ پھر وہی علت تم کو ایک دوسری شے میں بھی ملی تو اس میں بھی تم نے اس حکم کو ثابت کر دیا۔ اس قیاس کو تمثیل کہتے ہیں ۔ ’’تیسیر المنطق، ص: ۳۹ ۔ ۴۰۔‘‘اس کی مثالوں کو تفصیل کے ساتھ اوپر متن میں بیان کر دیا گیا ہے۔