کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 57
کے قائل نہیں ، کی علت بیان کر رہے ہیں ۔ ’’لا سمیَّ لہ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ رب تعالیٰ کا ایسا کوئی نظیر نہیں جو اس کے نام کے جیسے نام کا مستحق ہو یا (یہ مطلب ہے کہ) بلندی اور عزت و شرافت میں کوئی اس کا مقابل نہیں (تو جب کوئی اس کا مثل، نظیر، شریک، ہم سر اور مقابل ہی نہیں تو اس کے اسمائے حسنیٰ میں تمثیل کا قائل کیوں کر ہوا جا سکتا ہے؟) اس بات کو علامہ رحمہ اللہ نے ’’لانہ‘‘ سے بیان فرمایا ہے)۔ رب تعالیٰ کے سمی کی نفی پر سورۂ مریم کی یہ آیت (صاف صاف) دلالت کر رہی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا﴾ (مریم: ۶۵) ’’بھلا تم کوئی اس کا ہم نام جانتے ہو؟‘‘ (معنوی اعتبار سے) یہاں (’’ہل‘‘ حرفِ استفہام کا) استفہام ’’انکاری‘‘ ہے جو نفی کے معنی میں ہے (یعنی رب تعالیٰ کا ہم نام کوئی ہے ہی نہیں جسے تم جانتے ہو)۔ سمی کی نفی سے کیا مراد ہے؟: سمی کی نفی سے یہ مراد نہیں کہ غیر اللہ کے نام اللہ کے ناموں جیسے نہیں رکھے جا سکتے، کیوں کہ بہت سے نام ایسے بھی ہیں جو رب تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان مشترک ہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ جب یہ نام رب تعالیٰ کی ذات کے لیے رکھ دیے گئے تو ان کا معنی رب تعالیٰ کی ذات کے لیے اس طور پر مختص ہو جائے گا جس میں اللہ کا غیر شریک نہ ہو سکے گا کیوں کہ (اللہ اور اس کی مخلوق کا بعض ناموں میں ) یہ اشتراک کے ’’مفہوم کلی‘‘ میں ہے جس کا حرف ’’وجودِ ذہنی‘‘ ہوتا ہے (کہ مفہوم کلی ذہن میں پایا جاتا ہے ناکہ خارج میں ) جب کہ خارج میں اس معنی کا جزئیہ مخصوصہ پایا جاتا ہے جو مضاف الیہ کے اعتبار سے ہوتا ہے، لہٰذا اگر تو اس اسم کی اضافت رب تعالیٰ کی طرف کی جائے تو پھر اس کا معنی وہ ہوگا جو صرف رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہوگا کوئی غیر اس میں شریک نہ ہوگا، اور اگر اس کی اضافت بندے کی طرف کی جائے تو پھر اس کا معنی بندے کے ساتھ مخصوص ہوگا اور رب تعالیٰ اس معنی میں شریک نہ ہوگا۔ کفوء اور ند کی توضیح و تشریح: کفوء یہ ہم سر اور ہم رتبہ کو کہتے ہیں ۔ رب تعالیٰ کے کفوء کی نفی پر سورۂ اخلاص کی یہ آیت دلالت کرتی ہے: ﴿وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ﴾ (الاخلاص: ۴) ’’اور کوئی اس کا ہم سر نہیں ۔‘‘ اور ’’ندّ‘‘ کا لغوی معنی ہم رتبہ اور مساوی ہے، رب تعالیٰ کے لیے ند کی نفی اس آیت سے ثابت