کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 56
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (رب تعالیٰ کے بارے میں ) بتلایا ہے اوروہ رب تعالیٰ کی ذات اور صفات دونوں کی بابت کلام کو ایک باب قرار دیتے ہیں کیوں کہ صفاتِ الٰہی میں کلام ذاتِ الٰہی میں کلام کرنے کی فرع ہے، لہٰذا صفاتِ باری تعالیٰ میں کلام کرنے کے لیے اسی راہ پر چلا جائے گا جس پر ذاتِ الٰہی پر کلام کرتے ہوئے چلا گیا تھا۔ چناں چہ جب ذاتِ باری تعالیٰ کا اثبات دراصل وجودِ باری تعالیٰ کا اثبات ہے ناکہ وجودِ باری کی کیفیت کا اثبات ہے تو صفاتِ باری تعالیٰ کا اثبات بھی یہی ہوگا ناکہ صفات کی کیفیات کا) کہ وہ صفات کا اثبات ہوگا۔
ذات و صفاتِ الٰہی کی بابت بعض اکابر کیا قوال کا ذکر اور ان کی صحیح تعبیر و تشریح:
بعض اکابر کا اس باب میں یہ قول ہے: ’’صفاتِ الٰہی کو اسی طرح پڑھا جائے جیسے وہ (کتاب و سنت میں ) ذکر ہوئی ہیں البتہ ان کی کوئی تاویل نہ کی جائے۔‘‘ بعض نا سمجھوں نے اسلاف کے اس قول کی تعبیر یہ کی ہے کہ اس عبارت سے ان کا مقصود یہ ہے کہ معنی کے درپے ہوئے بغیر ان الفاظ کی فقط قراء ت کر لی جائے‘‘ مگر یہ تعبیر باطل ہے کیوں کہ اس عبارت میں جس تاویل کی نفی کی گئی ہے اس سے مراد صفاتِ الٰہی کے معنی کی حقیقت اور کیفیت کے درپے ہونا ہے۔
چناں چہ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’رب تعالیٰ کی صرف وہی صفت بیان کی جائے جو خود اس نے اپنی صفت بیان کی ہے یا جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔ پس (اس باب میں ) قرآن و حدیث سے قدم آگے نہ بڑھایا جائے۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ نعیم بن حماد فرماتے ہیں : ’’جس نے رب تعالیٰ کو اس کی مخلوق کے مشابہ قرار دیا وہ کافر ہے اور جس نے رب تعالیٰ کی اس صفت کا انکار کیا جو اللہ نے اپنے بارے میں بیان کی ہے، وہ بھی کفر میں جا پڑا، اور رب تعالیٰ نے اپنی جو صفت بیان کی ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کی جو صفت بیان کی ہے ان میں تشبیہ و تمثیل کا شائبہ تک نہیں ۔‘‘ [1]
اسمائے حسنیٰ اور آیات باری تعالیٰ میں تشبیہ، تمثیل، تعطیل اور تکییف کے نہ پائے جانے کی وجہ کا بیان:
علامہ رحمہ اللہ ’’لانہ سبحانہ لا سَمِیَّ لہ… الی آخرۃ‘‘ کی عبارت سے گزشتہ میں اہلِ سنت والجماعت کے جن عقائد کی خبر دی ہے کہ وہ صفاتِ باری تعالیٰ اور اسمائے حسنیٰ میں تکییف و تمثیل
[1] اسنادہ صحیح اخرجہ الذہبی باسنادہ فی کتابہ العلو، ویضا الالبانی فی مختصر العلو، ص: ۱۸۴۔