کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 54
پس نفی و اثبات کو یوں جمع کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حق مذہب نہ تو سرے سے صفاتِ باری تعالیٰ کا انکار کر دینا ہے۔ جیسا کہ ’’فرقہ معطلہ‘‘ کا دستور ہے اور نہ مطلقاً ان کا اثبات ہی ہے۔ جیسا کہ ’’فرقہ ممثلہ‘‘[1] کا طریق ہے۔ بلکہ (حق مذہب) رب تعالیٰ کی صفات کو بلا تمثیل ثابت کرنا ہے۔
’’کمثلہ‘‘ کی نحوی ترکیب:
علمائے نحو کا اس کاف کے اعراب کے بارے میں اختلاف ہے (کہ کاف حرفِ جر تشبیہ و تمثیل کا معنی ادا کرنے کے لیے لایا جاتا ہے اور یہی معنی لفظِ مثل بھی ادا کر رہا ہے اور یہ کلام غیر موجب ہے۔ ’’لیس‘‘ فعل ناقص ہے اور ’’کمثلہ‘‘ اس کی خبر مقدم ہے جب کہ ’’شیئٌ‘‘ اسم مؤخر ہے۔ اس اعتبار سے کہ حروفِ جارہ کا کلام غیر موجب میں زائد آنا اکثر ہے، بعض علماءِ نحو نے کاف حرفِ جر کو زائدہ قرار دے کر لفظِ مثل کو لفظوں میں مجرور جب کہ محلاً منصوب قرار دیا ہے۔ جب کہ کاف کی ترکیب میں کوئی جگہ نہیں البتہ یہ لفظوں میں فعل ناقص ’’لیس‘‘ کے متعلق ہے۔ مگر) صحیح تر مذہب یہ ہے کہ کاف (حرفِ جر) صلہ ہے (جو اپنے مجرور سمیت فعلِ ناقص کے متعلق ہے) اور یہ (لفظِ مثل کی) تاکید کے لیے آیا ہے (ناکہ زائدہ ہے اور کاف حرفِ جر کی تاکید کے لیے لانا کلامِ عرب میں شائع و ذائع ہے) جیسا کہ شاعر کے اس قول میں (بھی کاف تاکید کے لیے ہے):
لیس کمثل الفتٰی زُہَیْرٍ
خلقٌ یوازیہ فی الفضائل
’’اللہ کی مخلوق میں سے کوئی بھی ہمارے ممدوح زہیر نوجوان جیسا نہیں ہے جو فضائل و محاسن میں اس کے ہم پلہ ہو۔‘‘
’’فلا ینفون عنہ‘‘ میں ’’فا‘‘ تفریعیّہ ہے:
مذکورہ جملہ (نحوی ترکیب کے اعتبار سے) ما قبل (عبارت) کی تفریح [2] ہے۔ (جس پر ’’فا‘‘ تفریعیہ دلالت کر رہا ہے)۔ چناں چہ (اب عبارت کا مطلب یہ بنے گا کہ) اہلِ سنت والجماعت جب رب تعالیٰ پر اس (گزشتہ مذکورہ) طریقہ سے ایمان رکھتے ہیں تو (اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ)
[1] ممثلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو رب تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات جیسا قرار دیتے ہیں ۔ فقط واللہ اعلم۔
[2] تفریح: یہ کسی اصل کے تحت اس کی جزئیات کے استخراج کرنے کو کہتے ہیں ۔ ’’القاموس الوحید: ۱۲۲۳‘‘